پاکستان میں 2100اموات روزانہ کا باعث بننے والی غیر متعدی بیماریوں میں کمی کے لیے حکومت ضروری پالیسی اقدامات کرے۔ مائرین صحت

پاکستان میں 60فیصد اموات غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ دل، زیابیطس اور اسٹروک پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ان بیماریوں میں غذا کا ایک اہم کردار ہے۔ میٹھے مشروبات اور الٹرا پراسیسڈ فوڈز میں چینی، نمک اور ٹرانس فیٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو ان بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 افراد کی موت صرف ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں سے ہوتی ہے۔ ان کے استعمال کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلا اور موئثر ہتھیار جسے دنیا کے بہت سے ممالک نے کامیابی سے استعمال کیا ان پر ٹیکس بڑھانا ہے۔ اس سے نہ صرف بیماریوں میں کمی آئے گی بلکہ اس سے حکومت کو اضافی ریوینیو بھی ملے گا۔ اگر حکومت میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے تمام میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانے میں ناکام رہی تو پاکستان میں بیماریوں اور اموات میں اضافہ جاری رہے گا۔ ان مشروبات کے استعمال سے نہ صرف ہماری صحت کے مسائل بہت بڑھ رہے ہیں بلکہ یہ ہماری معشیت کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ انٹرنیشنل زیابیطس اٹلس 2021 کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے علاج پر ہوے والے سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2640 امریکی ڈالرز سے زیادہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کی صحت اور معیشت کو بچانے کے لیے، حکومت تمام میٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس عائد کرے۔ ان ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کو جزوی طور پر یا مکمل طور پر صحت عامہ کو فروغ دینے اور صحت بخش کھانوں پر سبسڈی دینے کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔ یہ بات ماہرین صحت نے وزارت صحت میں نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن اور پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے زیر اہتمام مشترکہ طور پر منعقدہ ایک قومی مکالمے میں کہی۔ وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تقریب میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں صدرپناہ میجر جنرل (ر) مسعود الرحمان کیانی، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ جناب محمد احمد قاضی، ڈائریکٹر نیوٹریشن اینڈ این ایف اے وزارت صحت ڈاکٹر خواجہ۔ مسعود احمد، جنرل سیکرٹری ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط، NUMS کے ڈائریکٹر Avant Health ڈاکٹر عمر ظفر جھگڑا، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ جناب منور حسین، سابق چیئرپرسن NCRC محترمہ افشاں تحسین باجوہ، پناہ کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان، سابق کمشنر انکم ٹیکس عبدالحفیط، صدر نیشنل پریس کلب جناب انور رضا، سی ای او ہارٹ فائل ڈاکٹر صبا امجد، ، جنرل سیکریٹری PANAH جناب ثناء اللہ گھمن، مختلف وزارتوں کے نمائندگان ماہرین صحت، سول سوسائٹی کے نمائندے اور میڈیا شامل تھے۔
ڈاکٹر ندیم جان نے کہا کہ پاکستان میں غیر متعدی امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جو وزارت صحت اور حکومت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ حکومت این سی ڈی میں تیزی سے اضافے کو کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی کیونکہ صحت عامہ کو بچانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
جنرل مسعود الرحمان کیانی نے کہا کہ حکومتpreventive health پر توجہ دے کیوں کہ یہ این سی ڈیز سے نمٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ ہمیں ایسی پالیسز بنا نا ہوں گی اور لوگوں کا شعور دینا ہو گا کہ وہ ایک صحت مند طرز زندگی اپنائیں اور صحت مند خوراک کو اپنائیں۔
‘منور حسین نے کہا کہ بڑی غیر متعدی بیماریاں جو بہت سے پاکستانیوں کو ہلاک کررہی ہیں وہ دل کی بیماریاں، فالج اور ذیابیطس ہیں۔ پاکستان میں یہ تمام بیماریاں عروج پر ہیں۔ ہم دنیا بھر میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں پہلے نمبر پر ہیں اور ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان میں زیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 30لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر فوری طور پر کوئی پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو 20245 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 6کروڑ 40لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔ میٹھے مشروبات خوراک میں چینی کا سب سے بڑا زریعہ ہیں۔ ان غیر صحت بخش مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے دنیا سے ثابت شدہ سب سے مؤثر قدم ان مشروبات پر ٹیکس بڑھانا ہے۔ اس سے نہ صرف بیماری کا بوجھ کم ہوگا بلکہ حکومت کو اضافی ریونیو بھی حاصل ہوگا۔ میٹھے مشروبات کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جزوی یا مکمل طور پر غذائیت کے پروگراموں اور پھلوں اور جوس پر سبسڈی دینے کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔
کرنل شکیل احمد مرزا نے کہا کہ پاکستان میں 60 فیصد اموات غیر متعدی امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں 40 فیصد بالغ افراد موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔اس کے لیے ہمیں ایسی غذاؤں سے بچنا ہوگا جیسے میٹھے مشروبات یا الٹراپرایسیسڈ فوڈز۔میٹھے مشروبات کے ایک چھوٹے گلاس میں 5 سے 7 چائے کے چمچ چینی ہوتی جو بہت سی بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومت ان غیر صحت بخش مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے ضروری پالیسی اقدامات کرے۔
ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ کئی دہائیوں سے پناہ اپنے ہم وطنوں کو اپنی صحت کی حفاظت کے لیے صحت بخش غذاؤں کے استعمال کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے۔ آگائی کے ساتھ ساتھ پناہ ایسی مضر صحت اشیاء کے استعمال کو کم کرنے کے لیے پالیسیز بنوانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جو دل، ذیابیطس اور دیگر بہت سی مہلک بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ مشروبات کی صنعت غلط اعداد،شمار کے زریعے پالیسی سازوں کو گمراہ کر تی ہے۔ کبھی وہ انویسٹمنٹ لانے کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی انڈسٹری کی جانب سے دیے گئے ٹیکسوں کا بتا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی طرف سے جمع کیے گئے ٹیکسز کی رقم ان سے ہونے والی بیماریوں کے اخراجات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کو کارپوریٹ مفاد پر عوامی صحت کو ترجیح دینی چاہیے اور پاکستانی عوام کی قیمتی جانیں بچانے میں مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے وزیر صحت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس اہم موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے لیے وزارت صحت کا انتخاب کیا اور عوامی صحت کے لیے اپنی commitment کا اظہار کیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں