بُونے ٹَھگ٘

یوں تو اس ملک خداداد میں ٹھگوں، لٹیروں اور کماشوں کی کوئی کمی نہیں رہی آج تک، ہر فرد دوسری کو چور کہتا ہے۔ٹھگ چور کو برا کہتا ہے، چور ڈاکو کو برا کہتا ہے، ڈاکو حکمران کا نام لیتا ہے اور حکمران عسکریت کانام لیتے ہیں اور ہمارے کیمبل پور کے ہمسائے بابا امریکا کا نام لیتے ہیں اور خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سارا ملبہ دل اپنے سے اوپر والوں پر اچھال دیا جاتا ہے یا پھر پاٹ مصلحت یا انسانی ضروریات کا جذباتی درس رسید رخ زلف کر دیا جاتا ہے۔

اگر طلباء کی بات کی جائے تو وہ ایک امید ہیں، وہ ایک دیا ہیں جو سارے جگ کو، مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری نوجوان نسل اس ملک نامراد کی آخری امید کہی جاسکتی ہے۔ اگر ایک عام سا جائزہ لیا جائے کہ یونیورسٹی اور کالج کے بچے درس گاہوں میں، کیفیٹیریا میں یا ہوسٹل میں بیٹھے آخر کیا باتیں کرتے ہیں تو سر فہرست عمران خان گھڑی چور ہے یا نواز شریف چور ہے، محترمہ بینظیر بھٹو کو کس نے قتل کروایا، بیوروکریسی کرپٹ ہے،کس جج نے یا کس ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ دیا ہے ، ہماری ہوسٹل اور یونیورسٹی انتظامیہ بے حد نالائق اور کرپٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔نا جانے یوں لگتا ہے کہ جیسے ISI کے خفیہ ایجنٹ ان کے پاس آ کر حاضری دیتے ہیں کیونکہ وہ اس قدر وثوق سے ملکی اور خیر ملکی خفیہ راز ایک دوسری کو ایسے بتاتے ہیں کہ مانو، اب یہ ریاست بالکل ٹھیک ہاتھوں میں ہے، اب نہ جانے وہ معلومات ان تک لاتا کون ہے نیز اس میں کس حد تک سچائی ہوتی ہے اس پر پھر کبھی بات کی جاسکتی ہے مگر فالحال مقصود طلباء کی نظام کی طرف دلچسپی کا تعین کرنا ہے، جبکہ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ طلباء کا رحجان بالکل ٹھیک سمت میں ہے وہ اپنے پیارے اجڑے وطن کی خاطر کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں شاید اسی طرح جس طرح شام کے تمام پروگراموں میں اینکرز کے روبرو ہمارے سیاستدان ملک و قوم کو سنوار رہے ہوتے ہیں مگر عمل نہ انکا درست ہے اور نہ ہی طلباء کا۔۔۔اسی زمن میں کچھ روز پہلے ایک قائد اعظم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل دوست کے ہمراہ قائد اعظم یونیورسٹی جانا ہوا، تمام یونیورسٹی تو نہیں مگر کافی حصہ سرسری طور پر دیکھنے کا موقع ملا, گڈو کے لان میں بیٹھ کر کھانا بھی کھایا مگر وہاں کے حالات جان کر بے حد افسوس ہوا، ایسا نہیں کہ یہ پہلی بار میں سن رہا تھا مگر اس تفصیل کے ساتھ سننے کا اتفاق زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

طلباء سیاست کے داعی تو بہت ہیں مگر میں اس میں کچھ گنجائش دیکھتا ہوں، میرا نہیں خیال کہ طلباء کو کھلم کھلا بدمعاشی کرنے کی اجازت ہونا چاہیے اور دوسری طرف اگر طلباء کو سیاست کا حق دینا ہے تو انتظامیہ کو طلباء سے 10 گنا باختیار اور مضبوط ہونا ہوگا تاکہ ایک نیچرل بیلنس پیدا کیا جاسکے، آخری بات یہ کہ باہر کے لیڈرز اور سیاسی جماعتوں کا عمل دخل ہرگز کیمپس کے اندر نہیں ہونا چاہئے، یونیورسٹی میں داخلے پر تمام نا سٹیک ہولڈرز اور غیر طلباء کا داخلہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے ممنوع ہونا چاہیے، ہوسٹل مکمل طور پر انتظامیہ کے کنٹرول میں ہونے چاہئیں تاکہ کسی قسم کی بھی ہلڑ بازی یا بد نظمی سے بچا جاسکے۔

ابھی تو طلباء سیاست پر مکمل آزادی نہ ہے مگر پھر بھی آخر کیا گُل کھلائے جارہے ہیں، ان تمام پر بات کرنا آج کے مضمون سے ہٹ جانے سے ہی مراد ہوگا!!! مگر قائد اعظم یونیورسٹی میں جاکر معلوم ہوا کہ ہوم ڈیلیوری پر آنے والے لوگ خائف رہتے ہیں اور کافی کمپنیوں نے تو اپنے لوگ بھیجنا ہی چھوڑ دیے ہیں یا تو ان سے پارس کوئی طالب علم چھین لیتا ہے جبکہ دوسری طرف آرڈر دینے والوں میں سے بھی بعض ATM کے نام پر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں اور واپس نہیں لوٹتے، یونیورسٹی میں کافی لسانی کاؤنسلز کا راج ہے جو غریب طلباء کو اپنی دھونس پر مفت کھانا کھلاتے ہیں یعنی State with in State جبکہ یقینا اس بات کا فائدہ ہی اٹھانا پیش نظر ہوتا ہے، یکا یک کچھ جھتے روز آنے لگتے ہیں آرڈر کرتے ہیں اور کھانے کا بل دیے بغیر واپس چلے جاتے ہیں، اگر کوئی پوچھ لے تو بدمعاشی کرتے ہیں ویٹر کو مارتے ہیں یا مالک تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے کچھ اچھے کھانا بنانے والے نام آئے اور یہی حالات دیکھ کر اپنا بوریا بستر گول کر کے چلتے بنے۔

ایک بار ایک ٹیکسی ڈرائیور روتا ہوا دیکھا گیا جو زور زور سے اپنا سر پیٹ رہا تھا، کچھ طلباء اس کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ چاچا کیا ہوا ہے؟ اس پر اس بوڑھے تلاش رزق شخص نے جواب دیا: اُس نے پیسے نہیں دیے اور چلا گیا۔۔۔۔نہ جانے بوڑھے باپ پر جو بچوں کے سپنے ڈھونے نکلا تھا پر کیا قیامت گزری ہوگی کہ وہ سارا اسلام آباد چھوڑ کر اپنا مہنگا تیل جلا کر گیا بھی تو گھاٹا کھانے؟ نہ جانے اس روز اس کے گھر کھانا پکا بھی ہوگا کہ نہیں یا اگلی صبح اس کی ٹیکسی چل بھی پائی ہوگی کہ نہیں؟ خدا ہی یہ سارے راز، دنیا کے دکھ اور سب کے عیب اپنے پاس محفوظ کیے ہوئے ہے۔

اب ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوتا ہے، ہاں وہاں کچھ زیادہ ہے مگر اور بھی بے شمار یونیورسٹیاں ہیں جہاں فوڈ پانڈا والے نہیں جاتے کیونکہ طلباء ان سے سامان چھین کر پیسے نہیں دیتے ہیں۔

طلباء کی محفلوں سے منسوب گفتگو،طلباء سیاست اور امید کا تذکرہ کرنا اس لیے ضروری تھا چونکہ اس کے سوا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ ہم من حیث القوم، منزل اولا سے منزل بالا تک سب دل کو چھوتی گفتگو کرتے ہیں مگر “عمل سے زندگی بنتی ہے” یہ بات ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی بھلائے بیٹھے ہیں، جیسے(صم بكم عمي فهم لا يعقلون) البقرہ:171

ان طلباء سے امید لگا کر سد بدھ بیٹھی اس قوم کا کیا ہوگا؟ یہ تو خداوند و ذوالجلال والاکرام ہی بتا سکتا ہے مگر انسانی جائزاتی نگاہ اس کو مستقبل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھتی۔۔۔۔

یہ بونے ٹھگ انتظامیہ کے اعصاب پر اس قدر استیعاب ہیں کہ ارباب اختیار کی دال ان کے آگے نہیں گَل پا رہی دوسری طرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ مغل دربار کے شہنشاہوں کی طرح خمار دور است میں بسی ہوئی ہو۔

اب اگر ہمیں طلباء سیاست پر بات کرنا ہے تو کچھ اوپر بتائے گئے عوامل پر صرف بحث و مباحثے یا ضابطہ گری کے بجائے کچھ عملی اقدامات لینا ہونگے اور اس پر انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے اور اساتذہ پر بھی یہ ذمداری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلباء کی تربیت کریں،مگر افسوس اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء وہیں ماسٹرز اور پی۔ایچ۔ڈی کر کے وہیں بھرتی ہوکر ابدی نیند سوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

یہی حال ہماری تمام یونیورسٹیوں کا ہے اکثریت فیکلٹی ممبران جہاں پڑھتے ہیں وہیں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کر کے وہیں محو زیست ہو کر بالیں یار سمجھ کر سو جاتے ہیں، نہ ان کو طلباء جگا پاتے ہیں نہ وہ طلباء کو بیدار کر سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بونے ٹھگ پڑھے لکھے چور، چور سے ڈاکو اور ڈاکو سے حکمران بن بیٹھتے ہیں، نہ جانے سٹوڈنٹس لیڈر ایوان پہنچ سکنے کا دل کو لبھاتا سائیکل کس قدر حقیقت پسندانہ ہے مگر یہ ٹھگ پور سے حاکم چور بننے کا سلسلہ اٹل ہے۔

اب اس ساری روداد کو جوانی اور بچبن کے لاابالی پن سے معلق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یونیورسٹیوں میں عاقل، بالغ، راشد اور صحیح الراس اور حسن تصرف جانے والے طلباء آتے ہیں، یہ ہرگز بچے نہیں کہلائے جاسکتے، جوینائل جسٹس سسٹم 2018 کے تحت بھی کم کم از یونیورسٹی والے تو نہیں لائے جاسکتے کیونکہ جامعات کے طلبا 16 یا 18 برس سے زیادہ عمر کے ہی ہوتے ہیں جو ہر قسم کی کوتاہی کے خود ذمداری ہوتے ہیں۔

اب اگر یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات مہم جوئی پر مبنی ہیں تو اس پر سنگین سزا ہونی چاہیے!! بہر حال نصیب پاک سر زمین یہ انتظامیہ کے لیے اور کچھ نہ سہی، خود سوزی کا مقام ضرور ہے۔۔


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں