کوئی ورق دکھا جو اشک خوں سے تر بہ تر نہ ہو !!!

16 دسمبر کیا آسمان بدلا بدلا سا ہے؟ روشنی اداس ہے شاید؟ کچھ تو ہے جو بدلا سا ہوا ہے؟ کوئی کمی تو ہے زیست میں؟ کوئی ڈھب تو بدلا ہے؟ جو بدلا ہے اس کی تفصیل بتانا بے حد ضروری ہے۔

1۔ اب اس ملک میں دہشت گردی نہیں رہی۔
2۔ اب یہاں انصاف کا خون نہیں ہوتا۔
3۔ اب یہاں قتل ہوا شخص شہید نہیں کہلاتا۔
4۔ اب یہاں مائیں اپنی کوکھ کو دیکھ کر ڈرتی نہیں ہیں۔
5۔ اب یہاں دھماکے نہیں ہوتے۔
6۔ اب یہاں بچے نہیں مارے جاتے۔
7۔ بس امن و شانتی کا بول بالا ہے۔
8۔ اب یہاں سقوط نہیں ہوتے۔
9۔ اب یہاں پیٹیاں نہیں اتاری جاتی۔
10۔ یہ ریاست اب فیڈریشن کا حقیقی منظر ہے۔
11۔ اب یہاں یار اغیار نہیں بیچے جاتے۔
12۔ اب کسی فیض کو پابجولاں نہیں چلنا پڑتا۔
13۔ اب یہاں اندھا نہیں بستا کوئی۔
14۔ بوری بند لاشیں بھی نہیں آتی ہیں اب۔
15۔ اب یہاں خواب نہیں روندے جاتے۔
16۔ مائیں صبح ماتھا چومتے خوف نہیں کھاتی ہیں۔
17۔ اب یہاں ہجرت نہیں کرنا پڑتی۔
18۔ اب یہاں گلیوں میں کوئی سکھ بھی نہیں ہوتے ہیں۔
19۔ اب تو دشمن کے بچے یہاں بستے ہی نہیں ہیں۔

آج کی تاریخ تو ایسی ہے کہ جس سیاہی سے بھی لکھو، سرخ نظر آتی ہے، پوچھو ان ماؤں سے کہ جن کے لخت جگر واپس اب تک نہیں لوٹے ہیں، آج بھی ان کو دستک کی، اس ہنسی کی، اس شرارت بھری زندگی کی یادیں دکھائی دیتی ہیں، پوچھو اس باپ سے کہ جو اب بوڑھا ہوچکا ہے، اب اس سے موٹر سائیکل، کار یا جیپ نہیں چلائی جاتی اب اس کے کندھے جھک گئے ہیں انہیں کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔۔۔

ہمارے پاس آج بھی ان ماؤں کو جواب دینے کے لیے کچھ نہیں ہے جو کہتی تھی عدالت میں کہ میرا بچہ سکول گیا تھا کوئی جنگ کرنے نہیں؟ وہ شہید نہیں ہوا وہ مارا گیا ہے؟ کہاں گئے وہ محبتوں سے چور وارنٹ جو اعلی عدلیہ نے جاری کیے تھے، کوئی آیا باز دید، یا فائل داخل دفتر ہوگئی ہے یا بری بوجہ عدم شہادت پرت پر لکھ دیا گیا ہے؟

تصور کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے کہ جب ان ننھے بچوں نے اپنے خوبصورت ہاتھوں پر زخم کھائے ہونگے جب بابا بابا کی آوازیں گونجی ہوگی، میں تو کافر ہوں مایوسی پھیلاتا ہوں، پر وہ فرشتہ صفت بچوں کی دعا جب عرش سے ٹکرا کر واپس لوٹی ہوگی، ان کے مان اور ان کی امید پہ اہل عفتہ نہ جانے کیا رائے رکھتے ہونگے۔

کچھ نہیں بدلا اس ریاست میں کچھ روز پہلے کئی اور ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئی ڈیرہ اسماعیل خان میں، کئی سہاگنیں بے سہاگ ہوئی، کئی یتیم ہوئے کون رکھے گا ان کے سر پر ہاتھ! اگر کوئی رکھ بھی دے تو آخر کیوں رکھے اس کا باپ کسی بھی نعمت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

اب اس سب پر بھی وہی ماتمی جلوس کیا جائے کہ جو ہوتا ہے اچھے کہ لیے ہوتا ہے؟

سقوط ڈھاکہ کو بھی مدت گزری، پر اب کے بچے بھی گئے نہیں لوٹے، 8 برس سے ہم صرف سرسری غم یاد منا رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ یہ غم ہر سال نہ دیکھے پڑیں مگر ایسا آج تک ہو ہی نہیں سکا، دشمن دھاک لگائے ہوئے بیٹھا ہے، جب بزم طرب قریب تر ہوتی ہے اس قوم پر وار کرتا ہے اور ہم اس کا سر قلم کر دینے کی بجائے شہادتوں کے سرٹیفکیٹ اور تمغے برائے جرات بانٹنے لگتے ہیں، اور شہیدوں کے اہل خانہ میں چیک کی تقسیم بھی ایسے ہی ہے کہ جیسے زخموں کو مندمل نہ ہونے دینا۔

آج غم یار ہے کہ بھی نہیں یہ معلوم کرنا اس واسطے مشکل ہے کیونکہ ہم اس سانحے کو اپنے چند مذمتی سٹیٹس لگا کر فراموش کر دیں گے اور پورے سال وہ ردی کی ٹوکری کھنگال کر بھی نہ دیکھیں گے کہ آخر جن باتوں پر ہم اشک خوں سے روئے تھے، جن پر مائیں سسکی تھی اس کا کوئی سد باب بھی تو کرنا ہے، کہ اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے کیونکر اور کیسے کر لڑنا ہے تاکہ یہ آئے روز کے غموں سے نجات کامل مل سکے اور سکون جاں آجائے۔ کہ یہ روز روز کا جینا مرنا،مستقل موت سے بدتر ہے۔

بس اس بے بسی کہ ساتھ کہ جن ارباب و بست و کشاد کی دسترس میں ان معاملات کی قلعی ہے وہ اس کو اب سلجھا دیں اور ہمیں معصوم بچوں کے دل شکن جنازے نہ اٹھانے پڑیں، ایک ہی پل میں 150 قتل نہ دیکھنے ہو، ہمارے بچے سکول جائیں جہاد کرنے کے واسطے نہیں، ہمارے شہر، کوچے، گلیاں، چوراہے، میدان آباد رہیں یہاں خون کی ہولی نہ کھیلی جائے۔

آخری بات یہی ہے کہ خدا لواحقین کو صبر جمیل عطا کر اور ان کو وہ انصاف فراہم کرے جس کے وہ طلبگار ہیں، صبر کی دعا دینا شاید بڑا آسان کام ہے اس دنیا میں۔۔۔

معجزے وقت پر نہیں ہوتے
سانحے وقت دیکھتے ہی نہیں


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں