آخری خواہش !!!

میر درد نے اپنے ایک شعر میں انسانی خواہش سے اکھتا کر اپنا حال دل کس یوم بیان کیا ہے:

جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنا، ملی مگر
یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو

ایک بار سہیل وڑائچ صاحب نے جناب اعتزاز احسن سے سوال کیا (خدا بیرسٹر صاحب کو عمر خضر سے نوازے) کہ آپ نے سیاست کی، وزیر رہے، وہ ایسی کیا خواہش ہے کہ جو پوری ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اس پر جناب اعتزاز احسن صاحب نے جواب دیا کہ اپنی زندگی میں شفاف الیکشن کا انعقاد دیکھنا چاہتا ہوں۔

تعجب ہے کہ اب کی بار جو بہتری کی امید تھی وہ بھی زائل ہوگئی ہے، چشم فلک نے گزشتہ برس میں دیکھا ہے کہ آئین کی دھجیاں کس طرح اڑائی گئی،اداروں کا تمسخر کس دھج سے اڑایا گیا اپنے ہی چہروں پر کس طرح کالک ملی گئی اور سب اچھا ہے کی اور کھپے کی میڈیا پریڈ کیسے کروائی گئی۔ پہلے تو سوال یہ ہوا کرتا تھا کہ الیکشن شفاف کیسے کر ہو پائیں گے؟ مگر اب کی بار تو الیکشن ہو کر ہی نہیں دے رہے، ماضی کی خواہش تھی دیانتداری سے کروائے گئے الیکشن، مگر اب کی خواہش ہے چوروں لٹیروں اور آ۔روز کی پھٹکار سے مزین الیکشن تاکہ آئین کی کتاب کو یہ توہین تو نہ سہنا پڑے کہ پہلے اس پر کالک ملی جاتی تھی اور اب اس کو چیرا جارہا ہے۔(مگر ایک طبقہ اس بات پر قائم ہے کہ آج تک کبھی آئین کو مقدس کتاب مانا ہی نہیں گیا، اس واسطے زیادہ پریشان ہونے یا سسٹم پر انگلیاں اٹھانے سے کچھ نہ ہوگا یہ 75 برس کا وائرس شدہ نظام ہے!! کب الیکشن پہلے وقت پر ہوئے ہیں یہ تو سرکار و سالار کی منشا کے تابع منعقد کیے جاتے رہے ہیں کتاب بنیادی حقوق کی کیا مجال کہ وہ رخنہ خیال یار آئے)

بہت سو کی خواہش اب یہی رہ گئی ہے کہ الیکشن ہو جائیں، اگر میں یہاں آئین کی دفعات کو بیان کرنا شروع کروں جو الیکشن سے متعلق واضح رہنمائی دیتی ہیں تو یہ سورج کو روشنی دکھلانے کے ہم پلہ ہوگا کیونکہ جو باتیں اعلی عدلیہ کر چکی ہے اس کے بعد کوئی قانونی بات کرنا بے جا ہوگا۔ مگر ہر طرف بے حس اور بے بس لوگ بیٹھے ہیں جو صرف یہ کہتے ہیں کہ جو چاہے ہوجائے وہ نہ باز آئیں گے اپنی ڈھٹائی، ہڈ دھرمی اور بدچلنی سے۔۔۔۔ایک امید تھی کہ نئے قاضی القضاء کے اعلی عدلیہ کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد شاید الیکشن ہو جائیں گے جس پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور الیکشن کا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ 8 فروری 2024 کو انتخابات ہونگے مگر حال ہی میں بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب کا بیان آیا ہے کہ امیدوار اپنا پیسہ الیکشن کمپین پر نہ لگائیں کیونکہ انہیں الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے، ان کی رائے سے نہ صرف میں اتفاق کرتا ہوں بلکہ مقتدر حلقوں میں اسی قسم کی تشویش پائی جاتی ہے اب تک نہ ہم نے انتخابی ہوا اور رنگ دیکھا ہے جو ماضی کے انتخابات میں نظر آیا کرتا تھا۔ ہر طرف سناٹا ہے نہ ہی کارنر میٹنگز ہو رہی ہیں اور نہ ہی ریلیاں، اگر کچھ عیاں ہے بھی تو وہ ہیں پابندیاں قدغنیں اور پالیسیاں جو حق آواز تک کو دبوچے ہوئے ہیں تو کیونکر حق انتخاب آزاد چھوڑ دیا جائے گا!! ہاں دکھانے کو اگر چھوڑا بھی گیا تو ٹھیک شکار کے لیے چھوڑے گئے پرندے کی ماند ہوگا جسے ہاتھ سے اڑتے ہی دوسرے طرف کھڑا مصنوعی شکاری اپنے نشانے پر لے آتا ہے اور خود کر جانباز شکاری کہلواتا ہے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ (مگر پہلے ڈھونڈ کہ شجر ہے کہاں)!!!

اس مقام بے فیض پر یہ ملک جس دھج کے ساتھ پہنچا ہے اس پر ایک رائے تو یہ ہے کہ آپ کس منہ سے یہ بنیادی حقوق کی فریاد لیے بادشاہ کے دربار کے آگے ماتم زن ہوتے ہیں، کبھی بادشاہ بھی رعایا کو بنیادی حقوق فراہم کرتے ہیں، پہلا حق تو یہ ہے کہ ان پر سے یہ سامراج کی سلطنت رفع کی جائے مگر ایسا تو داستانوں اور دیومالائی کہانیوں میں شاید ہوتا ہو، حقیقت میں تو ایک حکمران سے دوسرے حکمران کی غلامی تک کا سفر ہی رعایا کی زندگی کا چلن ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ الیکشن کو بنیادی حقوق کا نام دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے بھوک سے مرتے شخص کو دال اس بات پر نہ کھلانا کہ ہرن کی ران اس کے واسطے تیار ہورہی ہے!!! یہاں لوگ پانی،کھانے اور عزت سے محروم ہیں اور آپ انہیں الیکشن کے بنیادی حقوق کا پاٹ پڑھا رہے ہیں۔

پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر و سلطان سے بیزار ہے۔

اس ریاست میں تو بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے خدا ہیں جو اپنی اپنی سقط کے مطابق یزدانوی قوت رکھتے ہیں اسی کے تحت جتنی رعایا پر حکم چلا سکتے ہیں چلاتے ہیں، کبھی اندھے لوگوں کو بھی رستہ دکھایا جاتا ہے؟ حسین باغات کا منظر بتلایا جاتا ہے؟ یہاں تو مردہ، گدھ صفت حکمران اور آقا ہیں تو کون سے بنیادی حقوق اور کون سا آئینی اور جمہوری حق اور عمل!!!

یہاں تو خون، عزت آبرو سب بکتے ہیں اور آپ ایک ووٹ کے بک جانے پر اتنا شور و واویلا کرتے ہیں یہ تو کوئی بڑے اچنبھے کی بات نہ ہے۔ پھر سوال رہا خواہش کا جہاں زندگی ایڑیاں رگڑتے ہوئے محتاجی میں گزرتی ہو وہاں کیا خواہش اور اس سے ملحقہ زیب داستان۔

آخری بات یہ کہ ایک جملہ ہم زبان زد عام گوش گزار کرتے ہیں کہ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔۔یہ بات بھی غریب عوام تو ٹھیک اسی طرح جھانسا دینے کے لیے مددگار ہے جیسے مولوی صاحب کا غریب سے کہنا ہوتا ہے کہ کبھی امیر کو کار میں سوار دیکھو وہ بے سکون ہوتا ہے! اس کو رات میں نیند نہیں آتی وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ظلم کے ساتھ ظلم منسلک رہتا ہے کبھی آزادی مکمل ہو ہی نہیں پاتی اس بے رحم دنیا میں۔۔۔اور اگر کبھی ظلم مٹتا بھی ہے تو وہ صرف کسی ظالم کے ہاتھوں ہوتا ہے۔

خواب اور خواہش تو پیدا ہی ٹوٹنے کی خاطر ہوتے ہیں، چاہے وہ آخری خواہش ہی کیوں نہ ہو، تو اس مقام بے یار و مددگار میں الیکشن، پھر صاف و شفاف اور اس کے بعد مستحکم و آزاد حکومت کا تصور بھی کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں