سولہویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر،اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری پوری کریں۔قرارداد

سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے اختتام پر منظور ہونے والی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ قراردادیں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جن کو حاضرین نے ہاتھ کھڑے کر کے منظور کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئی ہے جب دنیا مختلف النوع مسائل سے دوچار ہے۔ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ حالیہ دنوں میں غزہ کے پر تشدد واقعات کی ہمرکابی میں ایک دفعہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، بربریت کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے۔غزہ تقریباً برباد ہو چکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، ہزاروں موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ ہم نہ صرف فلسطین کے عوام، وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی تحریروں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے، بلکہ ہماری خواہش اور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ ہم ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں، بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں، اور ان سب خطوں کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ تیسری قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پچھلی اور موجودہ عالمی اردو کانفرنسوں کے درمیان آرٹس کونسل نے پاکستان لٹریچرفیسٹول کے نام سے لاہور، آزاد کشمیر اور سکھر میں کانفرنسوں کے انعقاد کا جو مستحسن اور کامیاب تجربہ کیا ، ہم اس پر آرٹس کونسل آف پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کانفرنسوں نے ملک میں سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی کا کام سر انجام دیا۔ پاکستان لٹریچر فیسٹول جس بڑے پیمانے پر شہریوں کی دلچسپی اور شرکت کا محور بنے، وہ اس امر کا غماز ہے کہ لوگ ثقافت اور ادب کو اہمیت دیتے ہیں اور مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کو قبولیت سے سرفراز کرتے ہیں۔ چوتھی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان لٹریچر فیسٹولز کا یہ پہلو خاص طور سے قابلِ ذکر ہے کہ ان میں بحیثیتِ مجموعی لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔ بیشتر پروگراموں میں انہوں نے اظہارِ خیال بھی کیا اورپرفارم بھی کیا۔ رات گئے تک جاری رہنے والے یہ پروگرام نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی اور نظم و ضبط کا مظہر تھے۔ اس تجربے سے اس خیال کو یقین کا درجہ حاصل ہوا کہ ہماری نئی نسل تعمیری اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہے۔پاکستان کی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ حکومتوں اور وسائل یافتہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس نسل کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بہترین مواقع مہیا کریں۔تعلیم اور تحقیق کو سستا اور آئین کے مطابق سولہ سال تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت بنانے کے فرض کو پورا کریں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ جو اس وقت جی ڈی پی کے دو فیصد سے بھی کم ہے، اس میں اضافہ کیا جائے۔ ایک اور قرارداد میں پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ چھٹی قرارداد میں کہا گیا کہ ملک میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں کاغذ کی درآمد کہیں زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ نتیجتاً چھپنے والی کتابوں کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ پہلے ہی کتابوں کی تعداد اشاعت چار پانچ سو تک گر گئی تھی۔ اب پبلشر کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن چھاپنے پر مجبورہیں جو عموماً پچاس ساٹھ کی تعداد میں بھاری قیمت پر بکتے ہیں۔ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے لگائے جائیں، اور جب تک ایسا نہ ہو سکے اس وقت تک کتابوں کی اشاعت کے لیے درآمد شدہ کاغذ پر سبسڈی دی جائے۔ ایک اور قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ کتابوں اور رسائل کی اندرون ملک اور بیرون ملک ترسیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک کتابیں اور رسائل بھیجنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مطبوعات کی ترسیل کے نرخ اس حد تک کم کیے جائیں کہ ایک سے دوسرے شہروں میں چھپنے والے یا بیرون ملک چھپنے والے علمی اور ادبی سرمائے سے استفادہ ممکن اور آسان ہو سکے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں لائبریریاں بحیثیت مجموعی انتہائی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ چکی ہیں۔ تعلیمی اوردیگر اداروں کی لائبریریوں میں نئی کتابوں کا اضافہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔ پرانی کتابوں کی حفاظت اور نگہداشت بھی اکثر لائبریریوں کے بس میں نہیں رہی ہے۔ ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور متمول اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرف سے غفلت کو ترک کرتے ہوئے لائبریریوں کو از سرِ نو زندہ کرنے اور زندہ رہنے کے وسائل فراہم کریں۔ نویں قرارداد میں کہا گیا کہ ہم پاکستان کی سب زبانوں او ران کے ادبیات کی ترقی کے نہ صرف خواہش مند ہیں، بلکہ اس کو قومی ےکجہتی کے لیے ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے اس ضمن میں آئین میں دی گئی شقوں پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عمل درآمد کیا جائے۔ عالمی اردو کانفرنس میں کہا گیا کہ اردو کانفرنسوں اور پاکستان لٹریچر فیسٹولز سے پاکستانی معاشرے کا جو سوفٹ امیج اجاگر ہوتا رہا ہے، وہی پاکستان کا مستقل چہرہ بنا رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم آرٹس کونسل کی آئندہ کی پیش قدمیوں کی امید رکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کاوشوں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی رہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں