اسلام آباد: المیہ یہ ہے کہ قوم اپنے اقبال کے پیغام و مقام سے پوری طرح آشنا نہیں ہے۔ اقبال چاہتا ہے کہ دنیا کے سامنے دین کو سائنٹفک انداز میں پیش کیا جائے جس کی وجہ سے وہ علماء کی تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ اقبال تہذیبی ونظریاتی اساس کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قومی شاعری کے ذریعے نئی فکر لے کر آئے۔فلسطین و کشمیر سمیت آج مسلمہ اُمہ جس طرح کی صورتحال کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لئے ہمیں اقبال کی شاعری کی روح کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر فاروق عادل نے یہاں نظریہ پاکستان کونسل میں یومِ اقبال کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع “اقبال اور عالمی سامراجی نظام” تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اقبال اپنی قوم کو جدید علوم و فنون سے لیس ہو کر نکلنے اور جنگ و جدل سے دور رہنے کا درس دیتا نظر آتا ہے۔ قتل و غارت گری انسانیت کی تباہی اور سماجی و اخلاقی مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ بالغ النظری کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کرے تاکہ وہ اقبال کے قومی اور عالمی سطح کے حقیقی کارناموں سے آگاہ ہو سکے۔ سابق ممبر قومی اسمبلی اور این پی سی کی مجلسِ عاملہ کی رُکن مسز فرخ خان نے کہا کہ اقبال جید عالم اور سچے عاشقِ رسول تھے۔ اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دور حاضر کے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اقبال کی ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔
بعد ازاں مہمان مقرر ڈاکٹر فاروق عادل نے تقریب میں شریک اہلِ علم و دانش آغا نور محمد پٹھان، اکرم الوری، سلطان محمود شاہین، سید محمد علی اور امتیاز احمد قریشی کے اٹھائے سوالات کے جواب بھی دیئے۔
تقریب میں نظریہ پاکستان کونسل کے سینئر وائس چیئرمین محمد عبداللہ یوسف اور ایگزیکٹو سیکرٹری و مہمانِ اعزاز گوہر زاہدملک بھی موجود تھے۔ کونسل کے چیئرمین اور صاحبِ صدارت میاں محمد جاوید نے گوہر زاہدملک کو چائنہ میں “سلک روٹ گلوبل نیوز ایوارڈ” ملنے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال ہر زمانے اور ہر نسل کے محبوب شاعر تھے جنکی شاعری اپنے اندر ارض و سماء کے جیسی وسعت رکھتی ہے۔ان کی شاعری میں اک جہاںِ معنی پوشیدہ ہے جسے ابھی تک پوری طرح تسخیر نہیں کیا جا سکا۔ ہمارے مہمان مقرر نے بڑے مدلل انداز میں آج کے وسیع اور اہم موضوع کا جامع انداز میں احاطہ کیا ہے۔ اگر عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں سامراج مضبوط سے مضبوط تر ہوتا نظر آتا ہے جبکہ مسلمانوں کی حالتِ زار وہی ہے۔ ایک سامراج ہے جس سے سبھی تنگ ہیں۔ ایسے میں اقبال کی تقلید کی ضرورت پہلے سے بڑھ چکی ہے۔ اقبال کی آفاقی شاعری میں چھپے پیغام کو حقیقی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کی زیادہ ترشاعری فارسی میں ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے فارسی کی تعلیمات کوشش کر کے ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسے میں ہم اقبال کو کیونکر سمجھ پائیں گے؟
تقریب کے اختتام پر ، ممتاز قانون دان اور نظریہ پاکستان کونسل کی مجلسِ عاملہ کے سینئر رُکن سینیٹر ایس ایم ظفر کے انتقال پر دعائے مغفرت کرائی گئی۔