قسمت کی لکیر (چار صوبے)

کسی بھی ریاست کو موثر انداز میں چلانے کے لیے اس کے انتظامی دھڑے بنائے جاتے ہیں اور ان دھڑوں کا خزانہ اور دیگر ریاستی نظام وہاں کے گورنر یا وزیر اعلی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ نظام مملکت، ارسال احکام میں تاخیر کی بنیاد پر دور دراز کے علاقوں میں بنجر نہ پڑ جائے۔

یہ بادشاہ کے لیے ممکن نہ ہوا کرتا تھا کہ وہ ساری ریاست کے امور باریک بینی سے دیکھ سکے، اُس وقت آمد و رفت کے ذرائع بھی اتنے موثر نہ ہوا کرتے تھے کہ عالم پناہ جب چاہیں لانگ شوز پہنیں اور تصویر سازی کرنے زیر آب علاقوں میں پہنچ جائیں اور شام کا کھانا دوبارہ شاہی محل میں خاتون اول کے دوبدو ہو کر تناول فرمائیں۔ اسی وجہ سے سلطنت کے گورنر مکمل طور پر خودمختار ہوا کرتے تھے کہ اپنے صوبوں کی باگ دوڑ موثر انداز میں چلا سکیں اور رعایا کے مسائل کو حل کر کے ان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکیں۔

شیر شاہ سوری کے بہت سے امور کو سراہا جاسکتا ہے جس میں سے ایک جی ٹی روڈ بھی سر فہرست ہے، دلی سے کابل تک ایک سرکاری خط، شیر شاہ سوری کے دور میں 7 دن میں پہنچ جایا کرتا تھا، ہر 6 میل کے فاصلے پر ایک سرائے بنائی گئی تھی جہاں گھوڑے رکھے جاتے تھے، ایک گھوڑا ایک سرائے سے دوسری سرائے کی طرف خط پہنچاتا اور یہ نظام دلی کو کابل کے ساتھ جوڑ دیتا تھا، اس طرح نظام سلطنت چلانے کے لیے احکامات کے ارسال میں تعطل نہ آنے پاتا تھا اسی واسطے گورنر صوبے کا نظام بڑی شد مد سے چلایا کرتے تھے۔

یعنی اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صوبے، بادشاہ کے احکامات پر عملدرآمد کروانے میں مددگار ثابت ہوتے تھے اور ریاست پر گرفت، نمائندوں کی بدولت بہتر ہوجاتی تھی۔ اسی کے ساتھ عوام کا رابطہ بادشاہ کے ساتھ نہ سہی گورنر کے ساتھ بآسانی ہوجایا کرتا تھا۔یہی نہیں ریاست مدینہ میں بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنر امیر المومنین کی امور ریاست چلانے میں مساعدت کیا کرتے تھے۔

صوبے ہمیشہ انتظامی بنیادوں پر اٹھائے جاتے ہیں نہ کہ کسی خاص گروہ کی منشا کے طابع سر بکف ہوکر بنائے جاتے ہیں۔ اور یہ صوبائی نظام بھی آگے ضلعوں تحصیلوں قصبوں اور یونین کاؤنسل اور وارڈ تک جاپہچتا ہے اور انتظامی امور بادشاہ سے لیکر لمبردار تک منتقل ہوجاتے ہیں۔ہاں اس نظام کو بنانے کا قطعی مقصد یہ نہ تھا کہ بادشاہ سلطنت کے نظام سے لاتعلق ہے یا ہونا چاہتا ہے، بلکہ اس طرز حکومت سے حکمرانی ہر ہر علاقے میں سرائیت کر جایا کرتی تھی جس سے عوام اور بادشاہ دونوں کو تقویت ملتی تھی۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی ہم اپنا نظام ڈی سنٹرالائز نہیں کرسکے آج تک نظام چند مٹھیوں میں بند ہے، اِس کے کئی نقصانات سامنے آئے ہیں جن میں سے انتظامی بدنظمی اور طرز حکمرانی میں سست روی پیدا ہونا ہے، ایک حاکم چاہ کر بھی سارے نظام پر اپنا اثر ورسوخ نہیں رکھ سکتا، مقامی انتظامیہ حاکم کی ناک کے نیچے اپنے کالے کام کرنے لگتی ہے اور خود کو مادر پدر آزاد تصور کرنے لگتی ہے، اسلام آباد میں بیٹھے وزیر اعظم کے لیے یہ بات ناقابل عمل ہے کہ وہ خارجہ پالیسی بھی دیکھے کیبنٹ کانفرس بھی کرے اور ساتھ میں دور دراز “رکنی” کے علاقے میں ہونے والی روز مرہ کی کاروائیاں بھی زیر غور لائے البتہ یہ کام تو لاہور میں بیٹھا یا کوئٹہ میں بیٹھا چیف منسٹر بھی نہیں کرسکتا، اس کار تمنا کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مزید انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے کی ضرورت ہے جو بلدیاتی نظام کو بھی دوبارہ توانا کرسکیں۔

پاکستان کے قیام آگہی کے بعد سے ہی، ہم اپنے نظام کو شخصی پسند نا پسند پر چلاتے آرہے ہیں، پہلے ہم دنیا کی بڑی ریاست کو دو صوبوں کی بندر بانٹ کر کے چلاتے رہے جس کا نتیجہ اندوہناک ثابت ہوا اور ہم نے سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ایک عظیم سانحہ اپنے سر لیا، بحر حال اس کی اور بھی بے حد وجوہات ہے ان کو بیان کرنا مقصود حاضر الوقت نہیں. 1970 کے بعد کچھ خیال آیا اور ہم نے بلوچستان اور دیگر صوبے انتظامی بنیادوں پر الگ کر دیے مگر وہ آج تک بہتر انتظامی ڈھانچے ثابت نہیں ہوسکے کیونکہ ہمارے صوبوں کی آبادی ہی کروڑوں میں ہے اور صوبے کے دارالحکومت سے دوسرے کونے تک پہچنے میں سارے دن کا سفر درکار رہتا ہے اسی واسطے نظام کی باگ دوڑ انداز کار تمنا نہیں چلائی جاسکتی جو لوگوں اور صوبوں کا حق اور عوام کی تمنا ہے۔

پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے کی بات کو ہونے ہی نہیں دیا جاتا ہر بار ایک خاص طبقے یا گروہ کو رونما کر دیا جاتا ہے جو لسانیت کی آگ کو بھڑکا دیتا ہے اور ارباب بست و کشاد کی سلطنت عثمانیہ برقرار رہتی ہے ان کی سلطنت میں کوئی تقسیم کا باعث بنے یہ نہ ان کو قبول ہے نہ ہی ان کے حواریوں کو قبول و منظور ہے، کبھی کراچی میں مہاجروں کی آواز لگا دی جاتی ہے،ملتان میں سرائیکیوں کی آواز لگا دی جاتی ہے، مانسہرہ میں ھزارہ وال کی آگ بھڑکا دی جاتی ہے اور انتظامی ڈھانچے، خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کا سا تصور لیے گنہگار آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور سارے ملک کی عوام بھی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ ہماری نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے اور راء یا یہودی پھر ہماری ایکائی کو توڑ دینا چاہتے اور ہم دربارہ ملکی نظام کو ڈیسنٹرالائز کرنے کی بجائے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کہیں پھر کوئی سقوط برپا نہ ہو جائے اور یہ تک نہیں سوچتے کہ سقوط ڈھاکہ کی اصل وجہ ہی طاقت کا چند ہاتھوں میں رہنا اور عوام کے اذہان میں شکوک وشبہات ختم نہ کرنا تھا جو آج تک جارہی ہے، انتظامی ڈھانچے نہ بنانے سے بھلا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ یقینا “وڈا چوہدری کدے اے تے نہیں چاہندا” کہ اس کی جاگیر میں شریک پیدا کر دیے جائیں، چاہے ایک سر پنچ کے زیر انتظام اتنا بڑا علاقہ کر دیا جائے کہ وہ انصاف چاہ کر بھی نہ کر سکے تب بھی وہ اپنی پگ کے وقار کے لیے اپنا علاقہ کم نہیں کرواتا چاہے عوام آپس میں لڑ مر کر ایک دوسرے کو اھ موہا ہی کیوں نہ کردیں، پگ اوچی تے لمبی رہڑی چاہدی آ۔

ساری دنیا میں ایک ملک کے اندر بھی انتظامی ڈھانچوں کی علیحدگی سے ایک مثبت کمپیٹیشن پیدا کیا جاتا ہے ایسا نہیں کہ کراچی میں ساری انڈسٹری لگا دو اور باقی سارا سندھ بنجر صحرا کی طرح خالی چھوڑ دو، آخر لاڑکانہ اور نواب شاہ میں انڈسٹری یا کارخانے کیوں نہیں لگ سکتے کیونکہ لاڑکانہ کو ہم نے اس قابل بنانے کا سوچا ہی نہیں کہ وہ اپنے اخراجات خود اٹھا سکے، لاڑکانہ یا اس جیسے شہر کسی نئے صوبے کا دارالحکومت کیوں نہیں بن سکتے کہ جہاں ان کا پیسہ وہ خود خرچ کر سکیں اور ترقی کی دوڑ میں بڑے شہروں کے ہم پلی آجائیں اس سے فائدہ یقینا نہ نئی دلی کو ہونا ہے نہ تہران کو ہوگا اور نہ ہی بیجینگ کو ہوگا اگر واقعی کسی کو تقویت ملے گے تو وہ اسلام آباد کو ملے گی۔مگر ہم اس پر بات کرنا تو دور کی بات ہے اس پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم ان باتوں پر کسی اور کو بھی نہیں سوچنے دینا چاہتے، شاید اس ریاست میں اتنا گٹھن زدہ ماحول ہوتا جارہا ہے کہ اب سوچنے پر بھی پابندی لگنے لگی ہے۔

ہمارے ہمسائے بھارت میں 28 سٹیٹس اور 8 یونین ٹیریٹوریز ہیں، بنگلادیش میں 8 ، ایران میں 31 ، افغانستان میں 34 ،چائنا میں 31 یہاں تک کہ 50 لاکھ آبادی والے نیوزی لینڈ میں بھی 15 صوبے ہیں مگر دنیا کی آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک کے پتھر پر لکیر، نصیب دشمناں 4 صوبے ہیں پانچواں صوبہ اس قابل نہیں کہ اس کو صوبہ کہا جائے نہ ہم نے اسے کبھی صوبے والا وقار دیا ہے۔ تو کیا خاک ہم نے ترقی کرنا ہے ہم نے باپ دادا کی وراثتی جاگیر سمجھ کر زمین کے ٹکڑے چند سیاسی جماعتوں اور چند گھرانوں کی جھولی میں ڈال دیے ہیں اور وہ کب چاہتے ہیں کہ ان کی زمین کی ایک بالشت بھی دوسری طرف جائے۔

کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ یہ چار صوبے ہمارے ہاتھ پر قسمت کی لکیر ہیں اور جو کئی بار جوتشی نے پڑھ کر بتائی ہے ہر بار بدنصیبی اور بقا وطن چار صوبوں میں بتائی جاتی ہے، قیافہ شناس یہ بیان کر کے مر گئے ہیں کہ اگر اس ملک کے مزید صوبے بنائے گئے تو کوئی سانحہ ہونے کا خدشہ ہوگا پوچھا گیا کہ بابا جی کس قسم کا سانحہ تو بولے ترقی سے بڑا سانحہ اس ملک کے لیے اور کیا ہوسکتا ہے۔


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں