سی پیک کے برادر وسط ایشیائی ممالک

وسط ایشیا تاریخ عالم میں کثیر التعداد مزارات اولیائے کرام کے باعث شہرتِ دوام رکھتا ہے اس خطے کی آبیاری مضبوط ادب و ثقافت اور برگزید ہستیوں کی روحانی تربیت سے کی گئی ہے وسط ایشیا پانچ ممالک کرغیزستان ،ازبیکستان،تاجکستان،ترکمانستان اور قزاقستان پر مشتمل ہے بعض اوقات جغرافیائی الحاق کی بنیاد پر تاریخی تناظر میں افغانستان کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے یہاں روسی زبان کا غلبہ ہے لیکن مقامی زبانیں کرغیز،ازبک،تاجک،ترکی اور قزاقی بھی مقبول عام ہیں اس خطے کی مجموعی 72ملین آبادی میں 35ملین ازبکستان،19ملین قزاقستان،7ملین کرغیزستان،10ملین تاجکستان اور 6ملین ترکمانستان کی آبادی شمار کی جاتی ہے دریا ،پہاڑ سمندر ہوں یا تاحد نگاہ پھیلے خشک اور برفیلے صحرا وسط ایشیا کی قدرتی خوبصورتی آپ اپنی مثال ہے اس کا ترقی یافتہ ملک قزاقستان اور غریب ترین ملک کرغیزستان ہے.

گوادر پورٹ کی اہمیت کے پیشِ نظر سی پیک منصوبہ اس وقت تک کا اہم اور بیش قیمت منصوبہ ہے جس کے باعث پاکستان کے علاوہ گرد ونواح کے ممالک کو بھی بے پناہ تجارتی فوائد حاصل ہوں گے لیکن جن ممالک سے ہم تجارتی روابط استوار کرنے کے خواہاں ہیں ان سے متعلق مکمل معلومات نہیں رکھتے نہ ہی ان ممالک کے لوگ پاکستان سے متعلق آگاہی رکھتے ہیں پاکستان کی کمزور سفارت کاری،مخصوص خارجہ پالیسی اور بین الممالک میڈیا نمائندوں کے درمیان خلیج کے باعث ہمارا ازلی دشمن بذریعہ صحافت اور ادب پاکستان سے متعلق جو معلومات وسط ایشیائی ممالک تک پہنچاتا ہے اسی کے سبب پاکستان کا مثبت تاثر ابھی تک وسط ایشیائی ریاستوں تک نہیں پہنچ سکا اسی نسبت سے ہم خطے میں معاشی تعاون سے محروم اور تجارتی فوائد سے کوسوں دور ہو چکے ہیں وسط ایشیائی ممالک سے متعلق معلومات ہونا ازحد ضروری ہے تا کہ ہم دور رس نتائج حاصل کر سکیں.

کرغیزستان 199951مربع کلومیٹر جغرافیہ رکھنے والا ایسا لینڈ لاک ملک ہے جس کی سرحدیں قزاقستان ،ازبیکستان،تاجکستان اور چین سے براہِ راست ملتی ہیں اس کا دارالحکومت بشکیک نہایت اہم تجارتی مرکز ہے یہاں کا اہم حوالہ اس کا علاقہ اوش ہے جو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی پیدایش گاہ ہے روسی تسلط سے آزادی کے بعد حکومت کرغیزستان مدوجزر کا شکار رہنے کے باعث معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی مقروض ہوئی لیکن اس کے قدرتی وسائل سونا ،کوئلہ اور یورینیم نے کرغیزستان کی اہمیت کو کبھی کم نہ ہونے دیا بے یہ پناہ آبی وسائل کے باعث ہائیڈرو الیکٹرک توانائی بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے ہاں جانوروں کی بہتات کے سبب گوشت،اوون،ڈیری مصنوعات کے ساتھ زراعت میں گندم، آلو ،کاٹن،سبزیاں،پھل اور تمباکو برآمد کیے جاتے ہیں زرعی مشینری کے فقدان کے باعث زرعی امور قدیم انداز سے انجام دئیے جاتے ہیں زیادہ تر آبادی کرغیز قبائل کی ہے جب کہ ازبک اور روسی النثراد اقلیت میں ہیں 80ہزار کرغیز روس میں مزدوروں کا کام کرتے ہیں سکول کی تعلیم ضروری قرار دی گئی ہے جب کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ریاضی،تاریخ اور کوئی غیر ملکی زبان بنیادی مضامین ہیں کھیلوں میں گھوڑوں کا روایتی کھیل ،جوڈو،ریسلنگ اور کراٹے مشہور ہیں پاکستان نے 1992میں کرغیزستان کی آزادی کے اگلے برس سفارتی تعلقات کا آغاز کر دیا تھا لیکن 1995میں بشکیک میں پاکستانی سفارت خانے کا آغاز کیا گیا پاکستان اور کرغیزستان اقوام متحدہ ،شنگھائی تعاون تنظیم اور اکنامک تعاون تنظیم کے مشترکہ ممبران ہیں دونوں ممالک کے مابین 1995میں QTTAمعائدے کے تحت 1300میگا واٹ ہائیڈل توانائی کا تبادلہ ہونا متوقع تھاجس کا راستہ کراچی،راولپنڈی،حسن ابدال ،گلگت،خنجراب،کاشغر،ترگت،بشکیک ،اجکول کودائی اور الماتی سے منسلک تھا لیکن سی پیک کے اس اہم ملک کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات ہنوز تشنہ ءتعبیر ہیں.

تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے ہے اس ملک کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں اس کی جغرافیائی حدود پاکستان کے قریب تر ہیں یہاں مقامی کھیل گشتگری(کشتی)کے علاوہ پہاڑی سلسلے کےباعث ہائیکنگ،کلائمنگ،اسکئنگ وغیرہ مشہور ہیں1979کی افغان روس جنگ میں 1.2ملین تاجک پاکستان ہجرت کر کے گلگت اور چترال میں آباد ہوئے اقوام متحدہ کی کوششوں سے امن قائم ہونے کے بعد 800مہاجرین واپس گھروں کو بھیجے گئے پاکستان تاجکستان کے مابین ہائیڈرو الیکٹرک توانائی کے معاہدات طے ہیں 2021میں بھی تاجک صدر نے پاکستان کا دورہ کیااور پاکستان کے ساتھ دفاعی روابط بڑھاتے ہوئے پاکستانی اسلحہ برآمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے حکومتوں کے مابین ترقی اور رابطے کی غرض سے زراعت ،توانائی،سیکیورٹی ،تجارت،دفاع،ثقافت،انفراسٹرکچر کے 700ملین ڈالرز کے 50منصوبے زیر تکمیل ہیں ان شعبہ جات میں باہمی اشتراک کے معاہدات طے ہیں بین الحکومتی باہمی معاشی کمشن JECسیاسی ،معاشی،ثقافتی اور تکنیکی روابط کے لیے سرگرم ہے باہمی تجارت کے حجم میں اضافہ متوقع ہے سی پیک کا راستہ بذریعہ گوادر،پشاور،کابل،قندوز،دوشنبے،خنجراب،کلاسکو،مرغاب، چترال تجارتی راہ داری ہے.

علاقائی دہشت گردی،عدم استحکام،شدت پسندی،انسانی اسمگلنگ،منشیات فروشی کے قلع قمع پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہے.

تاجکستان میں پاکستانی تاجروں نے ٹیکسٹائل اور زرعی شعبوں میں 40کمپنیاں رجسٹرڈ کرا رکھی ہیں تاجکستان دنیا کا تیسرا بڑا ہائیڈرو الیکٹرک توانائی کا پیداواری ملک ہے 40مختلف دھاتیں برآمد کرنے والے اس اہم ملک کے ساتھ پاکستان کی براہِ راست پروازیں منقطع ہیں پاکستان کی برآمدات فیبرک،کاٹن،چاول،پھل ،سیمنٹ وغیرہ یہاں کی منڈیوں میں بہت درکار ہیں.

یہاں کی علمی درسگاہوں میں ہندی ذوق و شوق سے پڑھائی جاتی ہے ہم پاکستانی زبان و ثقافت کی ترویج سے اہم تجارتی نتائج حاصل کر سکتے ہیں فرد سے فرد کا تعلق ابھی تک نہایت کمزور ہے جس کے سبب دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے واقفیت نہیں رکھتے.

ازبیکستان کی سرحد افغانستان کے ذریعے پاکستان سے منسلک ہے اس کا دارالحکومت تاشقند ہے اس کے علاوہ سمر قند و بخارا کی تاریخی حیثیت سے ایک عالم واقف ہے یہاں روسی کے ساتھ ازبک زبان بولی جاتی ہے اردو اور ازبکی میں 4ہزار الفاظ مشترک ہیں 70ہزار ازیک پاکستان میں آباد ہیں شرحِ خواندگی 99فیصد ہے کھیلوں میں باکسنگ ،ریسلنگ،جوڈو کراٹے مشہور ہیں افغانستان میں بدامنی کے اثرات اس ملک پر بھی پڑے ہیں اسی لیے 2019میں افغان طالبان سے مذاکرات میں ازبیکستان نے میزبانی کی 2018-19میں پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط استوار کیے تو پاکستان کی جانب سے 90ملین کی سرمایہ کاری ہوئی لاہور سے تاشقند دوبارہ براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں اب پاکستان اور ازبیکستان ای سی او،او آئی سی،ایس سی او،جے ایم سی کے مشترکہ ممبران ہیں دونوں ممالک کے مابین مشترکہ معاہدات کی یاداشتیں جاری کر دی گئی ہیں ریل راستے کے لیے ترمذ کو کابل کے ذریعے پشاور سے ملایا جائے گا رواں سال مزید 8 منصوبوں کے اشتراک پر دستخط کیے گئے دونوں ممالک کے مابین تجارتی سرمایہ کاری کا حجم ایک بلین ڈالر متوقع ہے.

وزیر تجارت و سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کی جانب پیش قدمی کی ہے کیوں کہ اس سال ازبیکستان ورلڈ ٹریڈ تنظیم کا ممبر بن جائے گا ازبک صدر نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا جس دوران پاک ازبک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ AUPITطے پا گیا اور جلد ہی ازبیکستان میں پاکستان کی جانب سے پہلا تجارتی مال پہنچا دیا جائے گا سی پیک منصوبہ میں ازبیکستان ایک اہم دوست تجارتی ملک کی حیثیت رکھتا ہے.

ترکمانستان کا دارالحکومت اشک آباد ہے یہاں شرحِ خواندگی ننانوے فیصد ہے رسمی تعلیم کے ساتھ ووکیشنل ادارے بھی قائم ہیں 2019-20میں 12242طلبا ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہوئے 9063طلبا ملک کے 42ووکیشنل اداروں سے منسلک تھے 95000طلبا غیر ممالک میں زیر تعلیم تھے یہاں فٹ بال اور ریسلنگ معروف کھیل ہیں ان کی قومی فٹبال ٹیم فیفا ورلڈ کپ کا حصہ نہ بن سکی لیکن ایشین کپ AFAکی دو مرتبہ حقدار ٹھہری 1991میں باقی ریاستوں کے ساتھ آزاد ہوا تو دارالحکومت اشک آباد میں پاکستانی سفارت خانہ 1992میں ہی شروع کر دیا گیا 1994میں پاکستانی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دورے سے دونوں ممالک کے مابین دیرینہ تعلقات کا آغاز کیا 1997میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم کیے 2001میں ترکمانستان کے دسویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان نے ترکمانی جھنڈے کی تصویر ٹکٹوں پر جاری کیں پاکستان نے 2016میں ترکمانستان تک زمینی راستے کو حتمی شکل دی یہ چھے ملین کے ساتھ سب سےکم آبادی والا وسط ایشیائی ملک ہے یہ شاہ راہ ریشم کا اہم سٹاپ ہے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے کے باوجود اس کی ترقی دیدنی ہے قدرتی وسائل کے ذخائر کی بہتات کے سبب یہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے ملک کا وسیع حصہ قراقرم صحرا پر مشتمل ہے حکومت نے 1993تا2017عوام کے لیے پانی،بجلی،قدرتی گیس مفت فراہم کی مزید 2030تک یہ سہولیات انتہائی رعایتی نرخوں پر مہیا کی جائے گی ہر شہری 35کلو واٹ گھنٹے،50کیوبک میٹر گیس،250لٹر پانی حاصل کرنے کا حقدار ہے.

ترکمانستان نے ایران کے ساتھ 140کلومیٹر طویل قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز 1997 میں کیا2009میں چین ترکمانی قدرتی گیس کی دوسری بڑی مارکیٹ بن گیا 2019-20تک 35بلین کیوبک میٹر گیس سالانہ تین پائپ لائنوں بذریعہ قزاقستان ازبیکستان ، چین کو مہیا کی جاتی رہی
یہ ترک اسٹیٹ تنظیم OTSاور اقوام متحدہ کا مستقل غیر جانبدار ملک ہے ترکمانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں لیکن ایران اور افغانستان کے ذریعے راستے منسلک ہونے کے باعث ہر دو ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بہتر رکھنے کی ضرورت ہے.

قزاقستان وسط ایشیائی ممالک میں سب سے اہم،امیر ترین اور ترقی یافتہ ملک ہےبہت کم پاکستانی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ خلا میں پہلا شٹل تو روس نے بھیجا لیکن سرزمین قزاقستان کی تھی اس ملک کارقبہ 2724900 مربع کلومیٹر ہے جو اسے رقبے کے لحاظ سے اسلامی دنیا کا پہلا اور دنیا کا نوواں بڑا ملک بناتا ہے یہ وسیع و عریض ملک لینڈ لاک علاقہ ہے اس کے 159شہر اور 19ملین آبادی میں 40%مسلمان اور باقی عیسائی ،بدھ مت اور ہندو وغیرہ ہیں قزاقستان میں 2900مساجد اور 175رجسٹرڈ چرچ موجود ہیں یہ ملک قدرتی ذخائر سے مالامال ہے جن میں قدرتی گیس ،تیل،قیمتی دھاتوں،کیمیکلز کے علاوہ اہم برآمدات میں خام لوہا،اجناس،گندم،اوون،گوشت،سیب اور کوئلہ شامل ہے آبادی میں خواتین کی کثرت ہے جو ملکی تجارت کے 49%حصے میں شامل ہیں حکومت اسی باعث تسلسل سے خواتین کیلئے فلاحی منصوبوں کا اہتمام کرتی ہے 3291سکول قزاق ،2406روسی اور 2138مشترک زبانوں کی تدریس پر مشتمل ہیں غیر سرکاری تعلیم کا رحجان کم ہے تعلیم،صحت اور تحفظ تمام شہریوں کو بلا امتیاز مفت حاصل ہے.

1997تک اہم تجارتی مرکز الماتی شہر دارالحکومت رہا پھر کئی ہزار کلومیٹر دور اکمولا کو جو آستانا کہلایا دارالحکومت بنا دیا گیا قزاق جنگ آزادی کے غازی اور سابق صدر نور سلطان نذر بائیووف کی ملک کو مختصر مدت میں ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں لانے کی خدمات کا صلہ دارالحکومت کا نام تبدیل کر کے دیا گیا اب نور سلطان نذر بائیووف دارالحکومت “نور سلطان”میں رہائش پذیر ہیں جب کہ قاسم جومارت توکالووف صدارت کے منصب پر فائز ہیں.

قزاقستان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس کی جغرافیائی اہمیّت سے لگایا جا سکتا ہے یہ ملک یورپ کو چین اور یورپ کو جنوبی ایشیا تک راستا فراہم کرتا ہے ذرائع مدورفت کے لیے ریل،ہائی وے،ائیر وے اور سمندری راستے شامل ہیں صرف سمندری راستوں کے استعمال سے ملکی معیشت میں 11%جی ڈی پی فراہم ہوتا ہے.

ڈپٹی چیئرمین قزاق ٹرانسپورٹ کمیٹی قاسم تلی پووف نے بتایا کہ 5سالوں میں35بلین ڈالرز ٹرانسپورٹ کی مد میں سرمایہ کاری ہوئی ریلوے میں ٹرن آؤٹ 52.2%رہا یورپ اور ایشیا میں ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ کی مد میں یورپ اور ایشیا کے مابین حکومت نے 1.6بلین ڈالرز سے 2500کلومیٹر تک جدید ریلوے نظام کی بنیاد رکھی اسی طرح 498پروازیں یورپ،روس،جنوبی و مشرقی ایشیا اور وسط ایشیا سمیت 28ممالک میں روزانہ رواں ہیں2022میں ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد 4.5ملین رہی جو 2021 کی نسبت 9گنا زاید ہےاس خطے کی جغرافیائی اہمیّت کے باعث 2022میں امریکا نے بھی باہمی تعلقات پر زور دیتے ہوئے اوپن سکائی معاہدے کے تحت براہِ راست پروازیں شروع کر دیں.

قزاقستان کی 70%زمین چین سے یورپ اور دیگر ممالک میں ٹرانزٹ ٹریفک کے لیے مختص ہے5ریلوے اور 6بین الاقوامی آٹو موبائل راستے چین اور قزاقستان کے مابین فعال ہیں اور اندازے کے مطابق محض دس سے پندرہ روز میں مصنوعات مقررہ علاقوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں جب کہ 3.5بلین ڈالرز کے 51 بڑے منصوبے زیرِ التوا ہیں کیسپیئن سمندر کی تین بندرگاہیں اس کے علاوہ متحرک ہیں قزاقستان کی آزادی کے بعد کچھ عرصہ تک پاکستان کے ساتھ اس ملک کے تعلقات خوشگوار رہے مگر عالمی دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا.

2021 کے بعد پاکستان اور قزاقستان کے مابین تعلقات کی بحالی کا کام پھر سے شروع ہواقزاق سفارت خانے اسلام آباد میں ایک مخلص،متحرک اور محنتی سفیر قستافن ژرجان تعینات ہوئے جن کی کاوشوں کے نتیجے میں باہمی تعلقات دوبارہ بحال ہوئے وہ تجارت اور سیاحت کے فروغ کے لیے پاکستانی وزرا ،افسران اور کھلاڑیوں سے مسلسل ملاقاتیں کرتے ہیں کانفرنسوں ،نمائشوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی دوروں پر رہتے ہیں نور سلطان قزاقستان کے سفارت خانے میں تعینات اور حال ہی میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر سجاد احمد نے بھی باہمی تعلقات استوار کرنے میں مکمل تعاون کیا یوں پاکستان قزاقستان ،چین اور کرغزستان کے مابین گوادر پورٹ کے حوالے سے ایک ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدہ QTTAطے پا گیا ہے.

گذشتہ برس الماتی میں ہونے والی Made in Pakistan نمائش میں پاکستانی مصنوعات کوخوب پذیرائی ملی اور مارچ 2023میں دونوں ممالک کے مابین براہِ راست پروازیں شروع کی جا چکی ہیں حکومت قزاقستان اپنے دارالحکومت میں ثقافتی تعمیر نو کی لیے 2023 میں بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے اور پاکستان کو خاص مہمان سمجھتی ہے اسی باعث صدر قزاقستان قاسم جومارت توکالووف کی اس سال پاکستان آمد متوقع ہے.

سفارت خانہ قزاقستان اسلام آباد نے قزاقی زبان سیکھنے کے لیے مفت آن لائن تعلیم بذریعہ روسی،انگریزی اور فارسی کا اجرا کر دیا ہے حال ہی میں پاکستان ٹریول فورم اور صحافیوں کے وفد نے سفیر قزاقستان قستافن ژرجان سے ملاقات کی تو انھوں نے نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا مستقبل میں سی پیک منصوبے میں اشتراک اور عوام کے باہمی روابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قزاقستان آمد کی دعوت دی

اس نہایت اہم خطے کو مسلسل نظر انداز کرنا ،داخلی انتشار میں غرق ،خارجہ تعلقات سے لاپرواہی نے ہماری معیشت کو ناقابلِ فراموش نقصان سے دوچار کر دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وسط ایشیائی ریاستوں بالخصوص قزاقستان سے بہترین تجارتی وسفارتی تعلقات استوار کریں تا کہ ہماری ہچکولے کھاتی معیشت بحال ہو سکے.


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں