جامعہ کراچی میں ترکیہ کی صدسالہ تقریب کے موقع پر بین الاقوامی سیمینار ونمائش کا انعقاد، ترکیہ کےسفیر کا اظہار خیال

اسلام آباد: پاکستان میں قائم یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ برائے ترکی زبان اور جامعہ کراچی کے زیر اہتمام ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان ”اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلامی جمہوریہ ترکی کے باہمی روابط“ اور تصویری نمائش بسلسلہ جمہوریہ ترکیہ کی صد سالہ تقریب گزشتہ روز کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کے چائینیز ٹیچرز میموریل آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔

اس موقع پر تصویری نمائش میں شرکاء کو ترکیہ کے ماضی اور حال کے مختلف مراحل کا احاطہ کرتی تاریخ سے آگاہ کیا گیا۔ پاکستان میں جمہوریہ ترکیہ کے سفیر مہمت پاچاجی، کراچی میں تعینات ترکی کے قونصل جنرل جمال سانگو، کراچی میں متحدہ عرب امارات کے سی جی بخیت عتیق الرمیثی، پاکستان میں قائم یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ برائے ترکی زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیل طوقار اور شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے مذکورہ نمائش کا افتتاح کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ، ترکی کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر مہمت پاچاجی نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مضبوط تعلقات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے دلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔پاکستان اور ترکیہ کے درمیان صدیوں سے مظبوط رشتہ قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ جامعہ کراچی نے ترک ثقافت اور زبان کے مرکز کے قیام کی تجویز کو قبول کرلی اور انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ مذکورہ سینٹر طلبہ و دیگر افراد کو ترکی زبان اور ترکی کی ثقافت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ پاکستانی اور ترکیہ کے لوگ ایک دوسرے کی زبان سے واقف نہیں مگر وہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور مشکل وقت میں ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہتے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے عوام کے درمیان مضبوط رشتہ قیام پاکستان سے پہلے سے ہی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو پچھلی سات آٹھ یا اس سے بھی زیادہ صدیوں سے جانتے ہیں اور ان کی ثقافت اور تاریخ دونوں ممالک کے ادب میں موجود ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں کراچی اور جامعہ کراچی سے بہت پیار اور احترام ملا اور کہا کہ ترکیہ کے لوگ بھی پاکستانی عوام سے اسی طرح محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ترکیہ اور پاکستان ہمیشہ استعمار کے خلاف ڈٹے رہے ہیں اور جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں۔

دریں اثنا، کراچی میں متحدہ عرب امارات کے سی جی بخیت عتیق الرمیثینے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ترکیہ کے وفد کوان کے مادر وطن کے قیام کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد دینے کیلئے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جامعہ کراچی نے اس تقریب کا انعقاد کیا جس میں سامعین کو پاک ترک رشتے کے ماضی، حال اور مستقبل کی تفصیلات سے آگاہ کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ترک صدر اور ان کی اہلیہ ماضی میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پاکستان آئے تھے اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے دوروں بھی کئے تھے۔حاضرین نے بخیت عتیق الرمیشی کے اُردو خطاب کو خوب سراہا۔

بعد ازاں کراچی میں ترکیہ کے سی جی جمال سانگو نے کہا کہ ان کے لیے بہت سی وجوہات کی بنا پر یہ ایک اہم موقع ہے اور وہ خوش ہیں کہ جنوری 2024 سے ثقافت اور زبان کا مرکز جامعہ کراچی میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ آج ہم نہ صرف ترکیہ کے شاندار سفر کے سو سال کا جشن منا رہے ہیں، بلکہ دونوں قوموں کے درمیان موجود رشتوں کو اور بھی مضبوط کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں،ترک ایجوکیشنل اتاشی مہمت توران نے کہا کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے اُردو اور ترکی زبان سیکھنا پسند کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشترکہ ماضی، ثقافت اور رشتوں کو ایک دوسرے کی زبان کی طاقت سے محفوظ اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ ترکیہ میں اردو زبان اور ادب کے فروغ کے لیے کام ہورہا ہے اوراس سلسلے میں استنبول، انقرہ اور قونیہ میں مختلف شعبے بھی قائم ہیں۔

پاکستان میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیل طوقارنے امید ظاہر کی کہ جامعہ کراچی میں میں ترک ثقافت اور زبان کے مرکز کا قیام پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کا ایک نیا باب ثابت ہوگا۔سامعین سے اُردو میں گفتگو کرنے والے ڈاکٹر خلیل طوقار پاکستان کی مختلف علاقائی زبانیں بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ یونس ایمرے ترکیہ زبان کے عظیم صوفی شاعروں میں سے ایک تھے اور انسٹی ٹیوٹ کا نام انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مرکز طلبہ و دیگر لوگوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں اردو کے تین اخبارات جاری ہوتے ہیں جبکہ مختلف شعراء اور دانشوروں نے اپنی شاعری اور تحریروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ادبی کام کو اجاگر کیا ہے۔

دریں اثناء پاکستان میں پاک ترک معارف انٹرنیشنل ا سکولز سسٹم، کراچی کے بغرا اوزلرنے ایک پریزنٹیشن کے ذریعے حاضرین کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس موقع پر پاک ترک معارف انٹرنیشنل اسکولز سسٹم کا وفد بھی موجود تھا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ یہ ایک کثیر المقاصد تقریب ہے اورانہوں نے اُمید ظاہر کی کہ حاضرین نے دونوں برادر ممالک کے ماضی اور حال کے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہوگا۔انہوں نے مختلف زبانیں سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ترکیہ اور فارسی محاوروں کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ زبان آپ کو دوسروں کی تہذیب، رویے اور ترقی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور اگر ہم کسی ملک یا فرد کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں انکی زبان ضرور سیکھنی چاہیے۔ انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ آپ کو مختلف ممالک کی زبان سیکھنی چاہیے تاکہ آ پ پڑھنے یا نوکری کے حصول ان ممالک جائیں توآپ کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ماضی کی طرح دونوں ممالک کا مستقبل روشن ہوگا اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔اس موقع پر شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے جنوری 2024ء سے ترکیہ زبان کی تدریس کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی کہ جلد ہی جمہوریہ ترکیہ کے تعاون سے جامعہ کراچی میں ترکش کلچر ل سینٹر کا قیام عمل میں آسکے گا۔

اس موقع پر جامعہ کراچی کی ڈین آرٹس اینڈ سوشل سائنس پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم، صدرشعبہ اسلامی تاریخ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، جامعہ کراچی کے فوکل پرسن برائے یونس ایمرے پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس، پروفیسر ڈاکٹر نگار ساجد ظہیر، اور ڈاکٹر نزہت انیس نے بھی خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں