نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ عام انتخابات آئندہ سال ہوں گے اور جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور ان کے رہنماوں کے بغیر منصفانہ انتخابات ممکن ہیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس( اے پی) کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وہ ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے وہ سیاسی عمل کو چلائیں گے اور انتخابات میں حصہ لیں گے۔انوار الحق کاکڑ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کچھ دن قبل ہی اعلان کیا تھا کہ ملک میں انتخابات اگلے سال جنوری میں ہوں گے جس کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ سابق وزیراعظم کی انتخابات میں کامیابی کو روکنے کے لیے فوج انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کرے گی۔انہوں نے کہاکہ انتخابات فوج نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرائے گا اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری خود چیئرمین پی ٹی آئی نے کی تھی تو وہ عمران خان کے خلاف کیوں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے گا تو ہماری حکومت انتخابات کے لیے ہر قسم کی مالی، سیکیورٹی اور دیگر مدد فراہم کرے گی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ عدلیہ سے عمران کی سزا کو کالعدم اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی سفارش کریں گے تو نگران وزیراعظم نے کہا کہ میں عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کروں گا اور کسی بھی قسم کے سیاسی مقاصد کے لیے عدلیہ کو بطور آلہ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم ذاتی انتقام کی بنیاد پر کسی کا پیچھا نہیں کر رہے، لیکن ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ قانون پر عملدرآمد ہو، چاہے عمران خان ہو یا کوئی اور سیاستدان، جو بھی اپنے سیاسی رویے سے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا تو قانون کی بحالی کو یقینی بنانا ہو گا، ہم اسے سیاسی تفریق سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ منصفانہ انتخابات عمران خان یا ان کی پارٹی کے ان سینکڑوں کارکنان کے بغیر ہو سکتے ہیں جنہیں توڑ پھوڑ اور جلا گھیرا سمیت دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی پارٹی کے وہ ہزاروں لوگ جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے، وہ سیاسی عمل کو چلائیں گے اور انتخابات میں حصہ لیں گے۔جمہوریت کو لاحق خطرات اور پاکستان میں حقیقی فوجی حکمرانی سے متعلق پی ٹی آئی کے الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ دعوےہماری سیاسی ثقافت کا حصہ ہیں اور میں ان پر دھیان نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت فوج کے ساتھ بہت اچھے سے کام کررہی ہے، ہمیں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں اور میں اس سے انکار نہیں کر رہا لیکن عدم توازن کی مختلف وجوہات ہیں۔نگران وزیر اعظم نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ موجودہ عسکری اداروں کو کمزور کرنے کے بجائے سویلین اداروں کی کارکردگی کو بتدریج بہتر بنایا جائے کیونکہ اس سے ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے بغیر کوئی بھی الیکشن غیر آئینی، غیر قانونی اور غیراخلاقی ہو گا۔انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کا بیان آئین و جمہوریت اور ملکی مفادات کے حوالے سے ریاستی ڈھانچے میں پائی جانے والی عدم حساسیت کا مظہر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی سطح پر عوام کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور مقبولیت کے تمام معیارات کے مطابق عمران خان بلاشرکتِ غیرے ملک کے مقبول ترین سیاسی قائد ہیں۔انہوں نے کہاکہ نگران وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ عمران خان یا تحریک انصاف کی شمولیت کے بغیر کروایا گیا کوئی بھی الیکشن غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہوگا جسے عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی ترجمان نے کہا کہ غیرمعمولی عوامی تائید کی حامل سیاسی قیادت اور جماعتوں کو مصنوعی، غیرجمہوری اورغیرآئینی طریقوں سے انتخاب سے باہر کرنے کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوا کرتے ہیں اور دستور، قانون، جمہوریت اور اخلاق نگران وزیراعظم کو سیاست و انتخاب پر اثرا انداز ہونے کے کسی غیرفطری، غیرجمہوری اور غیرآئینی منصوبے کا حصہ بننے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ انوارالحق کاکڑ اپنے بیان کی فوری وضاحت کریں اور بطور نگران وزیراعظم اپنی حکومت کو جمع تفریق کے شرانگیز منصوبوں سے مکمل الگ کریں۔ قبل ازیں نگران وزیراعظم نے کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نہیں روکا جائے گا، توڑ پھوڑ کے الزامات پر قانون کا سامنا کرنا ہو گا،نگراں وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ کا جلد اعلان کرے گا۔
نیو یارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن نے کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نہیں روکا جائے گا۔نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری کے امکان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ان کے ساتھ جو بھی قانونی رویہ اختیار کیا جائے گا ہم اسی پر عملدرآمد کریں گے۔نگراں وزیراعظم کے مطابق مجھ سمیت کوئی بھی پاکستان کی خلاف ورزی کرے، لوگوں کے جان و مال کے لیے خطرہ ثابت ہو یا کسی عمارت کو آگ لگانے کو اپنا سیاسی حق کہے تو پاکستان کا آئین و قانون ایسی کوئی اجازت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو نہیں دیتا۔ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں پر بلوائی اور توڑ پھوڑ کا الزام لگ رہا ہے وہ ہماری عدالتوں کا سامنا کریں گے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہوسکتا ہے اس نظام میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں ہم بہتر کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اس نظام کے اندر ہی اس کے جوابات ہیں، نظام سے باہر کچھ نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرے اور شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچائے اور پھر کہے کہ اس کا سیاست سے تعلق ہے تو اس طرح کی سرگرمیوں پر بلاتخصیص قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ قوانین میں کسی کے ساتھ صنفی امتیاز نہیں برتا جاتا، قانون پر عمل پیرا ہیں، کسی بیرونی قوت کو جوابدہ نہیں ہیں، ہم خود مختار ملک ہیں۔جبکہ سابق اٹارنی جنرل رہنے والے اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو پاکستان واپس آ کر جیل نہیں جانا ہو گا بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے سرینڈ کرنا ہو گا۔اشتر اوصاف نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ نواز شریف کو لاہور سے اسلام آباد آنے کے لیے راہداری ریمانڈ حاصل کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس فیصلے کے خلاف بھی اپیل پہلے سے دائر ہو چکی ہے اب انھیں صرف عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا ہو گا۔تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکیل شعیب شاہین سابق اٹارنی جنرل کی دلیل سے متفق نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نہ صرف العزیزیہ میں بلکہ ایون فیلڈ کیس میں بھی اشتہاری مجرم ہیں اور قانون کی نظر میں وہ جہاں کہیں بھی نظر آئیں تو انھیں انٹرپول کے ذریعے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق یہ اور بات ہے کہ حکومت نے انھیں ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کیا ہوا ہے۔جبکہ پاکستان کے نگران وزیراطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تمام جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے اور سرکاری میڈیا کو کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
اے پی ایس نیوز ایجنسی کے مطابق اتوار کو ریڈیو پاکستان کراچی کے دورے کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ واضح ہے کہ ملک کا نظام منتخب نمائندے چلائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری میڈیا کو کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے سرکاری میڈیا کو ہدایت جاری کی کہ تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو مناسب کوریج دی جائے۔مرتضی سولنگی نے مزید کہا کہ یہ نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منصفانہ انتخابات کے لیے ماحول فراہم کرے۔پاکستان میں انتخابات کروانے کے لیے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن نے 21 ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں عام انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں ہوں گے۔گذشتہ جمعرات کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو جبکہ ابتدائی حلقہ بندیوں کی تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر 2023 کو جاری کی جائے گی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی 23 ستمبر، 2023 کو نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بات کی تھی۔نیویارک کے پاکستان مشن میں نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات وقت پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری انتخابات کروانا ہے اور وہ بہت جلد انتخابات کی تاریخ دے دے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعتی کو انتخابی عمل سے روکنے کا ارداہ نہیں ہے۔ اگر کوئی خود ہی ان خدشات کا شکار ہے تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کسی جماعت پر پابندی کا کوئی نوٹی فیکیشن جاری کیا ہے، کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کسی فرد کے سیاسی عمل میں حصہ لینے پر پابندی لگائی ہے؟ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مجھ سمیت کوئی شخص پاکستان میں توڑ پھوڑ کرے گا، آگ لگائے گا، لوگوں کے جان و مال کے لیے خطرہ ثابت ہو گا تو پاکستان کے قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ پاکستان میں عام انتخابات اگلے برس ہونے کی امید ہے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے گا تو ان کی حکومت تمام تر معاونت کرے گی جس میں مالی معاونت اور سکیورٹی کی فراہمی سمیت دیگر متعلقہ ضروریات پورا کرنا شامل ہے۔
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔