پاکستان کی تشخیص

یوم آزادی پاکستان کی تقریبات ماہ اگست میں شروع ہو کر اس کے اختتام کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں ہمیں اسی مہینے یاد رہتا ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کی تھی ،علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا چاہے کبھی فکر اقبال سے شناسائی ہی نہ ہو اور قائد اعظم کی قربانیوں کا شمار ہی نہ کیا ہو نظریہ پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کی ہو اور نہ کبھی اس نظریے کے اطلاق کی خواہش ظاہر کی گئی ہو کیوں کہ ہماری عوام آج بھی ہندوستانی موسیقی ،فلمیں ،ڈرامے،زبان و ثقافت کو نہ صرف شدومد سے دیکھتی ہے بلکہ لب و لہجے سے طرز زندگی تک خود کو ہندی زبان وثقافت اپنائے ہوئے ہے

ایک فلم انڈسٹری میں جائے گا شوق سیما حیدر نامی خاتون کو چار بچوں سمیت انڈیا کے گیا جہاں اس نے شرم و دھرم سچ کو خیر باد کہہ دیا ہم دو قومی نظریے کے برخلاف انڈیا میں فن کا مظاہرہ کرنے اور ادبی نشستوں میں شرکت کا کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں باہمی خوشگوار تعلقات کے خواہاں تو بارڈر پر اندھا دھند فائرنگ سے بےگناہ شہریوں کی ہلاکتوں کو فراموش کیے بیٹھے ہیں ہر سال سیلابی ریلے رواں کے کے پاکستان کو سیلاب کے باعث کروڑوں کا نقصان دینے والے ہندوستان کی ہولی اور دیوالی ہماری جامعات میں سرعام منائی جاتی ہے

دراصل ہم جس پاکستان میں آج رہائش پذیر ہیں جو مختلف موذی امراض میں گھرا ایسا ناتواں وجود رکھتا ہے کہ کوئی تند و تیز آندھی اس کی تباہی کا سرچشمہ بن سکتی ہے

اب ہم جائزہ لیتے ہیں پاکستان کےتمام شعبہ ہائے زندگی کی اصل اور حقیقی صورت حال کا جو ہمارے وطن کی بربادی کا باعث بنی ہوئی ہے ،تعلیمی نظام کے امتیازات اپنی جگہ لیکن حصول تعلیم ایک کوہ دشوار ہے سرکاری تعلیمی اداروں میں پیچیدہ مراحل اور پرائیوٹ اداروں کی تعلیمی تجارت،مغربی نصاب تعلیم اور دین سے دوری ،متشدد رویہ اور متنازعہ نظریات ،اساتذہ کا حسن عمل مفقود اور وقارمجروح ،کہیں تعلیم نسواں کی راہ میں دشواری تو کہیں نسائی تعلیم کے سکینڈلز !مہنگی تعلیم کے باوجود ملازمتوں کا حصول ناممکن ہے
سرکاری دفاتر کا حال تو کچھ یوں ہے کہ اعلیٰ افسران کے شاہانہ انداز اور بےلگام مراعات ،ماتحتوں کی حق تلفی عام رحجان ہے سرکاری ہسپتالوں پر نظر دوڑائیں تو ہسپتال کے انتظامی امورکی بد نظمی،صحت سہولیات کا فقدان اور طبی عملے کی بداخلاقی بام عروج پر ہے ہر عورت کا سی سیکشن کر کے اس کی زندگی کی بنیاد ہی کمزور کر دی گئی ہے ورکنگ ویمن کی صحت کا حکومتی سطح پر کبھی خیال نہ رکھا گیا محکمہ پولیس کو دیکھیں توکچھ عرصہ قبل تک اس کا اصلاحاتی نظام قابلِ تعریف تھا لیکن اب فلاحی کاموں کے باوجود پولیس کا روایتی طریقہ ہائے کارکردگی واپس لوٹ آیا ہے عدالت عوام کی خواری کا باعث بن رہی ہے کیوں کہ قانون وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں پولیس 1934کے رولز پر ،ضابطہ فوجداری 1908اور زمین و جائیداد کے قوانین 1860 کے مطابق رائج ہیں

معاشرتی بےراہ روی کا رستہ روکنے کا کوئی انتظام ہے نہ کوئی نعم البدل ،معاشرہ بےلگام اوربدعنوانی کی روش سرعام ہے

یہ کیسا ملک ہے جہاں ہم وطن نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد صرف پچھلے چھے ماہ کے دوران ملک کی بلند ترین تعداد میں ہجرت کر کے غیر ممالک میں مقیم ہو گئی، کاروباری طبقہ صرف ٹیکس بھرنے کے لیے ہے چھوٹے کاروبار یا خود انحصاری کے لیے عوام کو سہولیات میسر نہیں ،رہی سہی کسر افغانیوں کی شر انگیزی نے پوری کر دی زرعی شعبے پر ہاؤسنگ سکیموں نے شب خون مار رکھا ہے صنعتی شعبے میں منافع بڑے صنعت کاروں کے ہاتھ ہے حکمران عیاشیوں میں اور افسران آسائشوں میں محو ہیں قلمکار ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں قوم کی رہنمائی سے محروم ہیں صحافت کا ایک مخصوص طبقہ مراعات حاصل کر کے باقی ماندہ پر حکمرانی کرتا ہے بار ایسوسی ایشنز میں جونئیر وکلا کو وکالت کی بجائے سیاست پر توجہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے سرکاری عہدے دار عوامی دفاتر کی مشینری ذاتی کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں سرکاری دفاتر میں تجارتی مشاورت اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں سرکار کی جانب سے ملنے والی مراعات افسران کے اہل خانہ پر نچھاور کی جاتی ہیں ہر نو تعینات اعلی افسر نئے فرنیچر اور دفتر کی آرائش کی آڑ میں لاکھوں کا بجٹ ہضم کر جاتا ہے سرکاری دوروں میں ملکی مفاد کی جگہ انفرادی منفعت کو مقدم رکھا جاتا ہے عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ اعلی صرف اس لیے شروع کیا جاتا ہے تاکہ افسران یا حکمرانوں کے خاندان کو ٹھیکہ مل سکے ہر بڑا ٹھیکہ بااثر شخصیات کی بندر بانٹ ہوتا ہے تمام قومی و تاریخی ایام کی تقاریب خانہ پری اور رسمی طور پر ادا کی جاتی ہیں جس کا حب الوطنی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتاجب کہ قومی خزانے کی بھاری رقوم خرچ کرنے والے اعلیٰ عہدے دار عوام کی ہتک کا کوئی لمحہ جانے نہیں دیتے سرکاری نوکریوں ،کاروباری ٹھیکوں ،تعلیمی وظائف ،پرکشش عہدوں اور اعلی تعیناتیوں کے لیے جانب داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور زیادہ تر بھاری بھرکم نذرانے وصول کیے جاتے ہیں جنھیں بعد ازاں بدعنوانی کی ذریعے دوہرا تہرا وصول کر لیا جاتا ہے سبکدوشی یا ریٹائرمنٹ پر یہ با اختیار طبقہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ملک سے وداع ہو کے بیرون ملک بسیرا کر لیتا ہے پاکستان کے معاملات پر تنقیدی تبصرے کرنے والے بیشتر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہوتے ہیں جنھوں نے ملک کے وسائل کو خوب لوٹ کھسوٹ کے بعد اپنی معاشی حیثیت مستحکم کر رکھی ہوتی ہے

رہی عوام تو کبھی چند ہزار کی خیرات کی آس میں ،کبھی سستے آٹے کی قطاروں میں ،کبھی مفت کھانے کی تقسیم میں،کبھی ہسپتالوں کے باہر دم توڑتی،کبھی انصاف کے لیے خوار ہوتی،مہنگے بجلی گیس بلوں پر تلملاتی،کبھی بےروزگاری اور مہنگائی سے دل برداشتہ ہوکر معصوم بچوں کے ساتھ خودکشی پر مجبور ، صرف الیکشن کے دوران بریانی کی ایک پلیٹ پر استعمال ہوتی رہتی ہے ہم ان حالات میں تشکیل پاکستان کی آزادی کا دن بھی جھنڈے جھنڈیاں لگا کر رسمی بیانات کے ساتھ مناتے ہیں پاکستان کے تمام موذی امراضِ جلیلہ کی تشخیص کی جانب سوچئے کیوں کہ بیمار معیشت اور لاچار قوم کبھی بھی “استحکام” کی جانب ثابت قدم نہیں رہ سکتی


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں