برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جب کہ ایک سزا یافتہ مجرم کو مکمل سزا کاٹنے سے قبل رہا کیے جانے پر برطانوی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
نکتہ کے مطابق، برطانوی حکومت نے پاکستان سے باضابطہ طور پر وضاحت طلب کی ہے کہ وہ مجرم، جسے برطانیہ میں 30 سال سے زائد قید کی سزا سنائی گئی تھی، پاکستان منتقلی کے بعد کیسے رہا ہو گیا۔
2008 میں طے پانے والے دوطرفہ قیدی منتقلی معاہدے کے تحت اس مجرم کو پاکستان میں اپنی باقی ماندہ 24 سالہ سزا پوری کرنی تھی۔
یہ مجرم، جو پشاور کا رہائشی ہے، پہلے ہی برطانیہ میں کچھ عرصہ قید کاٹ چکا تھا، مگر اس کی پاکستان واپسی کے بعد، ذرائع کے مطابق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ہوم اور جیل محکموں کی ملی بھگت سے قبل از وقت رہائی ممکن بنائی گئی۔
مجرم کو اڈیالہ جیل سے خیبر پختونخوا ہوم ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پر پشاور سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا۔
معاملے کو مزید متنازع بنانے والی بات یہ تھی کہ مجرم کو جیل کے بجائے پشاور میں سماجی تقریبات میں شریک ہوتے دیکھا گیا۔ ان انکشافات کے بعد برطانوی حکومت نے پاکستان کے جیل نظام کی شفافیت اور ساکھ پر سوالات اٹھائے۔
وزارت داخلہ پاکستان نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، خاص طور پر اس الزام کے بعد کہ وطن واپس لائے جانے والے قیدیوں کو غیر معمولی رعایتیں دی جا رہی ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ، طلال چوہدری نے اس کیس کی تصدیق کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ قیدی، جس کی سزا کا ایک بڑا حصہ باقی تھا، کئی دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیا گیا تھا، جو ان کے بقول “نظام کے صریحاً غلط استعمال” کا مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا، “پیرول صرف چند گھنٹوں تک محدود ہونا چاہیے، اس قدر طویل رہائی کی کوئی توجیہہ نہیں بنتی۔”
ابتدائی تحقیقات کے بعد وفاقی حکومت نے تصدیق کی کہ مجرم واقعی پیرول پر رہا کیا گیا تھا اور بعد ازاں اسے پشاور جیل واپس بھیج دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کے پی حکومت اور جیل انتظامیہ کو سختی سے قوانین پر عملدرآمد کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
چوہدری نے مزید بتایا کہ پاکستانی حکام نے اس واقعے پر برطانوی ہم منصبوں سے وضاحتیں فراہم کی ہیں، اور یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ اب بھی برقرار ہے اور اس واقعے سے متاثر نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا، “یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی چوہدری نثار علی خان کے دور میں ایسا کیس سامنے آ چکا ہے۔”
ادھر وفاقی حکام نے خیبر پختونخوا حکومت سے مکمل وضاحت طلب کرتے ہوئے جامع انکوائری کا حکم دے دیا ہے، جب کہ قیدی کو دوبارہ اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
نکتہ کی جانب سے پنجاب اور کے پی ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹریز سے موقف کے لیے رابطہ کیا گیا، تاہم اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کے پی کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی بین الصوبائی منتقلی کا اختیار صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹس کے پاس ہوتا ہے۔
برطانوی ہائی کمیشن کے ترجمان نے انفرادی مقدمات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم یقین دلایا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ کا معاہدہ بدستور قائم ہے اور اس کے خاتمے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔