یوں تو ازل سے بابا آدم اور حوا کی اولاد میں سے آج کے دن تک، ہر طبقے پر بے تحاشہ الزامات، تہمتیں لگتی چلی آئی ہیں، سیاست دانوں کی، عوام کے حقوق اور مال پر ڈاکہ زنی تو تاریخ میں زبان زد عام رہی ہے، افسر شاہی بھی کبھی پیچھے نہیں رہی، عدالتوں کو بھی اس کیچڑ میں دھکیلا جاتا رہا ہے، یہاں تک کہ نکاح ٹوٹ جانے تک کے لغو فتوے بھی دیے جاتے رہے ہیں مگر ایک ایسا طبقہ ضرور تھا جو عزت کے آنچل میں پنپتا رہا، جس کی عزت برقرار رہی، جس پر اعتبار کیا جاتا رہا، بڑے بڑے اکابرین بھی اس طبقے کے احترام میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے، کسی کی عزت ہو نہ ہو اساتذہ اور دانشوروں کی عزت اپنی جگہ موجود رہی، زندگی کے نشیب و فراز میں، برے وقت ایسے لوگوں پر باقی تمام شعبوں سے زیادہ ہی آئے ہونگے، بدچلن اور فرعون صفت حکمرانوں اور معاشرتی غضب کا نشانہ یہ لوگ ہر دور میں بنتے رہے مگر جھوٹ، فریب اور مکاری سے اپنے دامن کو بچائے رکھا، اپنی زندگیوں کو جہنم بننے دیا مگر اصولوں سے ہٹ جانے پر درخور اعتنا نہ کیا۔
مگر پھر یوں ہوا کہ، جس طرح مادیت طوق ایندھن بن کر سارے معاشرے پر چھاتی چلی جارہی ہے اسی طرح یہ باوقار طبقہ جو معلموں اور لکھاریوں سے لیس تھا، جو تحقیق کی دنیا سے ہماری بنجر زندگیوں کو اپنے علم سے منور کر دیا کرتے تھے، وہ بھی بے ایمانی اور کرپٹ سرگرمیوں میں ملوث ہو کر ایک سرابی ترقی کی نظر ہو کر رہ گئے ہیں، اب کاربن پیپر پر رکھ کر تحقیقی مضامین لکھے جاتے ہیں اور ایک ہی برس میں ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جو 60، ساٹھ تحقیقی مضامین علم الاجسام/علم طبیعیات پر لکھ دیتے ہیں اور وہ تمام پاکستان میں چھاپ بھی دیے جاتے ہیں، اسی کے نتیجے میں ان کی ترقی BPS 17 سے 18 اور 19 اور اس سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، اب بھلا خدا جانے کہ ایک ہفتے سے کم عرصے میں ایک تحقیقی مضمون مرتب کر لینا اور چھپوا لینا کیسے کر اور کیونکر ممکن ہے اس بات کا علم نہ تو میرے علم میں ہے اور نہ ہی ایک عقل سلیم رکھنے والے شخص کے پاس ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے شعبوں سے وابستہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ساری وقعت ہے ہی جدت کی اور نئے رنگ کی اگر چھپائی ہی کرنا ہے تو پھر یہ تحقیق کاہے کی۔۔۔۔
اب اگر تحقیقی جرائد کی تہہ کو جانچنے کے لیے تھوڑا سا پس منظر سمجھا جائے تو مشرف دور میں عزت مآب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب، جب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر تھے تو اسی کے ساتھ ساتھ وہ 2002 سے 2008 کے استعفے تک، وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ بھی رہے، اسی دوران 2005 میں ایک پالیسی لائی گئی جس کو HEC RESERACH AND JOURNAL POLICY گردانا گیا اور اسی کے مطابق W،X،Y،Z طبقات کے نام سے جرائد کو قومی بجٹ کے تحت، تحقیق کو اجاگر کرنے، اور قومی جرائد کے معیار کو بہتر کرنا مقصود تھا۔
اب اس کے بعد ہوا یہ کہ سارا کا سارا بار زیاں اور ترقی کا پیمانہ تحقیقی مضامین کے سرے لگ گیا، اگر کسی نے ماسٹرز کرنا ہے اور ساتھ میں نوکری میں کرنا ہے تو اس کے تحقیقی مضامین بھی چھپے ہونے چاہئیں، مزید یہ کہ پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے واسطے تو بے حد ضروری ہے کہ آپ نے اپنے نصاب کے مطابق منفرد تحقیق کر رکھی ہو، مگر اب حال ستم یہ ہے کہ صرف ڈگریاں تقسیم کی جاتی ہیں، مضمون کسی سفارش پر بھی چھاپ دیے جاتے ہیں یا پھر کسی کی کاسہ لیسی کی جائے تو وہ اپنے اچھے مضمون میں آپ کا نام بھی لکھ دیتا ہے چاہے اس نام کو ڈالنے کے لیے رقم ہی کیوں نہ دی ہو، یعنی علم پر بھی رشوت کی آشیر باد ہوچلی ہے۔ اگر تحقیقی مضامین کو پرکھا جائے تو تعداد اتنی ہے کہ دل جھوم اٹھے مگر پڑھا جائے تو دل بھر آئے، کہ اس قدر چربہ در چربہ، اس قدر علمی چوری، بے ایمانی کہ توبہ۔
اب عالم ستم یہ بن ٹھہرا ہے کہ اس قسم کے مضامین کے سوا ترقی نہیں ہوسکتی تو مانو چوری کا دروازہ ہر وقت آپ کے سامنے کھلا ہے کہ کب آپ اس بے لحاظ دنیا میں داخل ہو جائیں اور جتنی چاہیں چوری کریں دو، چار ایچ۔ای۔سی کے جرائد میں کاربن پیپر سے تیار شدہ تحقیقی مضامین چھپوائیں اور ترقی حاصل کرلیں۔
یہ بات اس قدر رنج کا باعث بنتی ہے کہ کئی شعبوں میں بے حد محنتی اور قابل اساتذہ، جو اپنے ہنر، اپنی قابلیت اور تجربے کی وجہ سے ان تمام کاربن پیپر والے دانش وروں سے بہتر ہیں اور ان کے استاد ہیں مگر چونکہ انہوں نے کوئی تحقیقی مضامین نہ لکھ رکھے ہیں، اس لیے ان کو ترقی نہیں دی جاسکتی، چونکہ وہ چوری نہیں کرتے، اور ترقی صرف بے ایمان لوگوں کا حق ہے، ایمان دار اور اصول پسند آدمی نے ترقی کا کیا کرنا ہے اس کے لیے تو روکھی سوکھی ہی اچھی ہے!!!
یہ تحقیق کا بازار بھی کسی ٹیکساس سے کم نہیں رہا، اب اس میدان میں تعلقات اور کاسہ لیسی رچ بس گئے ہیں، نہ کوئی منفرد تحقیق ہوتی ہے اور نہ ہوسکے گی جب تک معیار تعلیم فقط چھاپے ہوئے مضامین ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ نظام بھی اس قدر برہنہ ہوچلا ہے کہ خدا جانے کیا ہوگا۔بہت سے تحقیق سے منسلک لوگ ڈاکٹر عطاء الرحمن کی لائی گئی تحقیقی مضامین کی پالیسی کے ناقد ہیں مگر میری نظر میں تنقید تو کی جاسکتی ہے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ایک اچھی چیز کو کیسے غلط سمت میں استعمال کرنا ہے وہ کوئی ہم سے سیکھے،ہم ہیں تو زندہ قوم مگر ہر بات پر چور دروازے لگائے بیٹھے ہیں، ہاں اگر انہی جرائد کو مثبت اور شفاف انداز میں چلایا جاتا تو یہ پالیسی بے شک بہتریں ہوتی، مگر میں اس بات پر بھی سہمت ہوں کہ چاہے لاکھ اچھی پالیسیاں نکال لی جائیں، جب تک ان پر چلنے اور چلانے والے نہ سدھر جائیں گے بھلا کیا ہوپائے گا۔۔۔۔
اب اگر بات کی بات کی جائے کہ طلباء کی کہ وہ اپنے thesis کیسے لکھتے ہیں یا یوں کہوں کہ کیسے لکھواتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، کسی کو پیسے دینا کسی کی خوشامند کرنا اور جھوٹی تحقیق، کار زیاں اپنے مادر علمی کے منہ پر مار کر، اپنا اور ادارے دونوں کا چہرہ کالا کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ماسٹر کر لیا ہے، جبکہ اس کی بنیاد صرف ردی کا پرزا جمع کرنا ہے جسے ہم بڑی شان سے “ڈگری” کہتے ہیں۔ اور اگر نوکریوں کی بات کی جائے تو وہ بھی شاید ان لوگوں کے لیے ہیں کہ جنہوں نے ماسٹر تو کم از کم کر رکھا ہو، کیسے کیا ہو یہ بات اب اصولی نہیں رہی، بس ڈگری، اب اس حد تک بکتی ہے کہ آپ نے کر رکھی ہو، کتنا کچھ آتا ہے یہ بے معنی ہے، کیونکہ اب جو آگے بیٹھے ہیں وہ بھی اسی نظام کے Beneficiaries ہیں۔
اگر بے ایمان دانش ور دیکھنے ہوں، تو کسی کتاب خانے پر چلے جائیے اور کسی ایک موضوع پر چند لکھاریوں کی پاکستانی اور غیر ملکی کتابیں خاص کر جو تحقیق سے منسلک ہو اکٹھی کر کے موازنہ کیجئے کہ ہمارے پاکستانی دانشور جو باقی تمام شعبہ زندگی کے افراد کو بے ایمان، لٹیرا اور بے ضمیر سمجھتے ہیں انہوں نے کتابیں کس کس کتاب سے نقل کر رکھی ہیں، سب عیاں ہو جائے گا۔۔۔۔
یقینا یہ بات کرنا اور لکھنا دونوں ہی مشکل ہیں مگر اب ہم ہر چوری کی طرح دانش بھی چورانے لگے ہیں، اور اب رب جانے کہ جو “زندہ قوم” علم بھی لوٹنے لگے اور ڈھٹائی سے لوٹنے لگے تو اس پر کیسے حکمران اور کسیے قاضی اور کیسے سپہ سالار کیسے طبیب اور کیسے سائنس دان اور کیسے ارباب و بست و کشاد نازل کیے جائیں گے، اس بات کا حساب لگانا کچھ خاص کٹھن تو نہ ہے۔
دپتی مشرا کہتی ہیں:
سب کچھ جھوٹ ہے لیکن پھر بھی بالکل سچا لگتا ہے
جان بوجھ کر دھوکہ کھانا کتنا اچھا لگتا ہے
اینٹ اور پتھر مٹی گارے کے مضبوط مکانوں میں
پکی دیواروں کے پیچھے ہر گھر کچا لگتا ہے
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں