خیبر پختونخوا میں داعش کے خلاف پہلا آپریشن سال2014ء میں کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ نے اس وقت کیا جب پشاور کے نواحی گاؤں گڑھی عطاء محمد میں داعش سے روابط رکھنے والے عبد الرشید نامی شخص کو مارا گیا۔2014ء کے بعد اس خطے اوربالخصوص خیبر پختونخوا میں داعش نے سکیورٹی فورسز اور پولیس کو نشانے پر رکھا۔خیبر پختونخوا کو بیک وقت تحریک طالبان پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ،تحریک جہاد پاکستان اور داعش سمیت کئی دیگر تنظیموں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔2014ء سے2023ء کے دوران داعش سے وابستگی رکھنے پر 55افراد کو مارا جا چکا ہے جبکہ305افراد سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ ماہ پشاور میں داعش نے13کاروائیاں کیں جس میں 9افراد ملوث تھے جن میں 6سہولت کار بھی تھے۔داعش نے ان کاروائیوں کے دوران مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک،ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اورسکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 4سکھوں کو قتل کیا۔
داعش نے 4سال میں پاکستان میں کتنے حملے کرائے؟
امارت اسلامی اور تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ داعش کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے تاہم سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز(سی ایس آئی ایس)کی رپورٹ کے مطابق داعش نے 2020ء سے2023ء کے دوران پاکستان میں پولیس، سکیورٹی فورسز اور سیاسی اجتماعات پر4سال کے دوران119حملے کئے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 627افراد شہید ہوئے۔ ان حملوں میں 91 خیبر پختونخوا میں کرائے جاچکے ہیں۔ داعش کے ان حملوں میں 15خود کش دھماکے بھی شامل ہیں۔ان دھماکوں میں 5 حملے سکیورٹی فورسز پر کئے گئے ہیں جبکہ 10 خودکش دھماکے عوامی مقامات پر کرائے گئے ہیں۔2020ء سے 2023ء کے دوران خیبر پختونخوا میں 91حملوں میں 209افراد شہید ہو ئے جن میں سب سے زیادہ 42حملے باجوڑ میں کئے گئے ہیں جن میں 91افراد شہید ہو ئے ہیں۔ پشاور میں 35حملوں کے نتیجے میں 100افراد شہید ہو ئے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں 6حملوں میں 5افراد، خیبر میں 3حملوں میں 3افراد، کرک میں ایک حملہ کے نتیجے میں 2افراد، کوہاٹ میں ایک حملہ میں ایک، کرم میں ایک حملہ میں ایک، شمالی وزیرستان میں ایک حملہ میں 3افراد، سوات میں ایک حملہ میں 3افراد شہید ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کیک مطابق داعش نے اسی عرصہ کے دوران پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 18حملے کرائے جا چکے ہیں جن میں 64افراد شہید ہو چکے ہیں۔مستونگ میں 9حملوں کے نتیجے میں 12افراد، کچی میں 3حملوں میں 24 افراد، کوئٹہ میں 3حملوں میں 18افراد، قلات میں ایک حملہ میں ایک شخص اور سبی میں ہونے والے ایک حملہ میں 8افراد اور ژوب میں ایک حملہ کے نتیجے میں ایک شخص شہید ہو ا ہے۔اسلام آباد میں ایک حملہ کے نتیجے میں ایک شہید ہو ا ہے۔پنجاب میں 9حملوں میں 8افراد شہید ہو چکے ہیں۔راولپنڈی میں ہونے والے6حملوں میں افراد، لاہور میں ایک حملہ میں ایک شخص، شیخوپورہ میں ایک حملہ میں ایک شخص شہید ہو چکے ہیں۔
پاکستان پر داعش کی حمایت کا الزام انتہائی مضحکہ خیز
”شدت پسندی کے خلاف جنگ“پر پی ایچ ڈی کرنے والے تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر سیف اسلام کا کہنا ہے کہ داعش نے پاکستان کے اندر کارروائیاں کی ہیں اور وہ سکیورٹی فورسز سمیت ایسے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جس سے زیادہ خوف پھیلے ملک عدم استحکام کا شکار ہوں کوئی بھی دہشتگرد تنظیم کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوتی۔پاکستان حکومت کی جانب سے امارات اسلامی پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کے دباؤ کی وجہ سے اب اس افواہ کو ہوا دی جارہی ہے کہ پاکستان داعش کی پشت پناہی کررہا ہے تاکہ دباؤ کو کسی نہ کسی حد تک کم کیا جاسکے۔
ماضی میں افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر طالبان کو پناہ دینے اور حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جبکہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار رہا ہے اب یہ الزام لگانا کہ وہ داعش کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بیان ہے۔ ان کے مطابق داعش خراسان اس خطے کیلئے خطرہ بننے کیساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان اور امارات اسلامی کیلئے بھی ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ اب تحریک طالبان پاکستان اور امارات اسلامی کو یہ خدشہ ہے کہ ان کے لوگ بھی داعش کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ افغان حکومت کی 3 لاکھ 70 ہزار سکیورٹی اہلکار اورنیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی(این ڈی ایس)کے اہلکار جو طالبان کو بھی مطلوب تھے ان میں سے کچھ تو بیرون ممالک چلے گئے کچھ پاکستان آگئے اور دیگر کا یہ پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہے؟امارات اسلامی کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی تو ان کیلئے بہت مسائل پیدا کرسکیں گے۔تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے اور وہ امارات اسلامی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی صرف داعش ہی افغانستان میں کارروائیاں کررہی ہے اور پاکستان کے اندر بھی وہ متحرک ہیں لیکن پاکستان میں اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سیف السلام کے مطابق داعش افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں موجود ہیں لیکن وہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جہاں ان کے مفاد ہوتے ہیں وہاں پر کارروائیاں کرتے ہیں اس تنظیم کا سٹرکچر کس طرح ہیاس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے۔
پاکستانی اداروں نے کراچی، پشاور کے رنگ روڈ،متنی اور بلوچستان میں آپریشن کرکے داعش کے نمائندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ٹی ٹی پی پہلے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے رہے تاہم انہوں نے لائحہ عمل تبدیل کرکے صرف سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے داعش بھی مستقبل کے بارے میں مستقبل میں یہی لائحہ عمل اختیار کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے اس بارے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ تو وحشت میں ٹی ٹی پی کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
جہاد ازم پر ریسرچ کرنے والے تجزیہ نگار عبدالسید کے مطابق داعش میں طالبان کے جنگجو شامل ہوئے ہیں اور افغانستان میں حدود پر مسئلہ پیدا ہوگیاہے۔
ٹی ٹی پی اور امارت اسلامی نے داعش کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے منقسم گروپ کو اکٹھا کرنا شروع کیاتاہم جولائی 2020 ء میں ٹی ٹی پی نے داعش کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کاآلہ کار قرار دیا۔ میڈیا پر دونوں کے اختلافات کھل کرسامنے آگئے۔ 2021 ء میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی نے امارات اسلامی کا دینے کا اعلان کیا تو مسئلہ مزید بگڑ گیا اور داعش نے الزام لگایا کہ ٹی ٹی پی بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ لیکر پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اور داعش نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔داعش کی جانب سے 2020ء میں تحریک طالبان پاکستان پر 7 فیصد حملے کئے ہیں۔2021 میں 33 اور 2022 میں 72 فیصد حملے شامل ہیں۔ داعش اپنی جڑیں مضبوط کرنے اورتحریک طالبان پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے ان جنگجو کو شامل کرنا چاہتے ہیں جو ہراول دستہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اس کیساتھ ساتھ سلفی یوتھ کو بھی شامل کی جا رہا ہے تاکہ وہ طالبان کے خلاف لڑ سکیں۔