پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، ہوشربا مہنگائی اور معاشی عدم توازن نے ملک و قوم کی ساکھ متاثر کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے لیے بداعتمادی کی فضا پیدا کر دی حکومتی ادارے اس اچانک بحران کے پس پردہ محرکات کی کھوج میں مصروف عمل ہوئے تو کچھ تلخ حقائق منظر عام پر آئے جلد ہی پاک افغان سرحدوں طورخم ،غلام خان اور چمن کی نگرانی شروع کر دی گئی جہاں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ( ATTA)کے تحت تجارت ہوتی ہے تحقیقاتی اداروں کو ڈالر کی سمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی غیر قانونی سرگرمیوں کی شنید ملی حکومت نے فی الفور ماہ اکتوبر کے آغاز میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق ایک نیا حکم نامہ جاری کیا (1397-1-SRO)کے مطابق کامرس کی وزارت نے 212ائٹمز پر پابندی لگا دی ان میں ٹائر،کپڑا،چائےکی پتی،کاسمیٹکس،خشک میوہ جات ،مصنوعی فائبر اور الیکٹرونکس مصنوعات شامل ہیں (1380-2-SRO) کے مطابق جن اشیاء پر پابندی نہیں لگائی ان پر دس فیصد ڈیوٹی لگا دی گئی مزید یہ کہ ٹریڈ میں انشورنس گارنٹی ختم کر کے بینک گارنٹی کو لازمی قرار دے دیا تاکہ ڈالر کی سمگلنگ روکی جا سکے.
پاکستان بزنس کونسل نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا اور افغان ٹرانزٹ کے غلط استعمال کے خلاف حکومتی کوششیں خوش آئند قرار دیں ان کے مطابق اس صورت حال میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا تھا ڈیوٹیز اور ٹیکسز کا غلط استعمال ہو رہا تھا پی بی سی نے نہ صرف ان حساس اشیاء کے کوالٹی کنٹرول کی حمایت کی بلکہ خام مال کا دائرہ کار بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا کیوں کہ جو صنعتیں افغانستان میں موجود نہیں ان کا ٹرانزٹ مال بھی وہاں جا رہا تھا اسی باعث پاکستان میں بلیک اکانومی کا رحجان بڑھ گیا تھا افغان ٹریڈ کے تحت افغان درآمدات میں 66فیصد اضافہ ہوا جس کی مالیت 6.71ملین ڈالر ہے جب کہ پاکستان کی درآمدات میں نمایاں کمی واقع ہوئی پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان حکام اس سلسلے میں غلط بیانی کرتے رہےاور یوں پاکستانی روپیہ تین افغان روپے کے برابر آ گیا.
اگر افغانستان کے تجارتی جغرافیے کی اہمیت کو مدنظر رکھیں تو چین جیسی مضبوط معیشت نےطالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے سفارت کار افغانستان روانہ کیے ایران اور روس بھی اس کی تجارتی راہ داری کی اہمیت سے واقف ہیں.
حال ہی میں ایک افغان تاجر مطیع اللہ قریشی نے اصل حقائق سے پردہ فاش کرتے ہوئے نہایت اہم معلومات شیئر کیں مطیع اللہ قریشی بتیس برس سے تجارت کے ساتھ منسلک ہیں ان کے خاندان کا امریکا ،روس،ملائیشیا اور دیگر ممالک میں بزنس ہے وہ “مطیع لائن لاجسٹک سروسز”کے سی ای او ہیں ان کا کہنا ہے کہ جو تحقیقاتی رپورٹ حکومت پاکستان کے عہدے داران نے مرتب کی وہ حقائق سے مختلف ہے دراصل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ تو موجود ہے لیکن 5وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کا ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ایک برس میں تجارتی ہدف ڈیڑھ ارب ڈالر سے سات ارب ڈالر تک پہنچنا باعث تشویش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجارتی معاہدے کی عدم موجودگی میں یہ ریاستیں “افغان کنسائنی”کے نام سے ٹرانزٹ ٹریڈ کرتی ہیں روس یوکرائن جنگ کے بعد وہاں کے تاجروں نے اس خطے کا تیزی سے رخ کیا تو افغانستان کے ساتھ دیگر ریاستوں کا تجارتی حجم بڑھ کر سات ارب ڈالر تک جا پہنچا پھر ٹرانزٹ ٹریڈ کے سخت مراحل میں پورٹ شپنگ،لائن،کسٹم،ایجنٹس،مال چیکنگ کے لیے ٹریکرز اور بارڈر پر سکینگ شامل ہے ان سب میں سمگلنگ کافی مشکل کام ہے افغانستان میں ڈالر کی مانگ کم ہے نئی حکومت افغان کرنسی کے استحکام پر متوجہ ہے اب نئے قانون کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ کی بینک گارنٹی ڈالر کی سمگلنگ کا عقدہ حل کر لے گی وسط ایشیائی تاجر پاکستان کی جانب رخ کر رہے ہیں افغان راہداری ان کا بہترین تجارتی راستہ ہے وہ شفاف دل اگر پھر بداعتمادی کا شکار ہوئے تو آمدہ بدگمانی کا تدارک ناممکن ہو گا مطیع اللہ پاک افغان چیمبر آف کامرس کے ممبر بھی ہیں اور پاک افغان تجارت میں دیرینہ تعلقات کے خواہاں ہیں ۔وہ حکومت پاکستان سے ملتمس ہیں کہ جن افغانیوں نے قانون شکنی کی ہو ان کا قلع قمع ضرور کریں وہ غیر قانونی مقیم افغانیوں کے انخلا پر بھی معترض نہیں لیکن پرخلوص اور سنجیدہ تاجروں کے مسائل پر شفاف تحقیقات کے بعد غور کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ماہ اکتوبر میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے حکم نامے کے سامنے آتے ہی بیش قیمت مال بردار گاڑیاں سرحد بند ہونے کے باعث تجارتی راہداری میں پھنس گئی ہیں جس سے تاجروں کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے حکومت این ایل سی کے ذریعے یہ گاڑیاں منزل مقصود تک پہنچانے کے اقدامات کرے تاکہ پاکستان اس راہ داری سے متوقع سالانہ چالیس ارب ڈالر تک کما سکے.