پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا مسلم دنیاکے ممالک کیلئے بڑی نویدتھی,میاں محمد جاوید چیئرمین نظریہِ پاکستان کونسل کی پروگرام “میرا نقطہ نظر” میں گفتگو

اسلام آباد : میں دنیا کے کئی ممالک میں گھوما ہوں ، میں نے کبھی کسی کو اپنے ملک کے قیام کا جواز تلاش کرتے یا جواز پیش کرتے نہیں دیکھا۔ میری نظر میں قیامِ پاکستان کا جواز تلاش کرنا بلا جواز ہے۔ ہم سب قیامِ پاکستان کے بعد کی پیداوار ہیں۔ پاکستان جیسا بھی ہے میں یہاں پیدا ہوا ہوں ، پاکستان میری ماں ہے اور میں اس کے لئے جان بھی دے سکتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار ماہرِ علم ِ بشریات، معروف افسانہ نگار و دانشور ڈاکٹر عبدالوحید رانا نے نظریہ پاکستان کونسل کے ماہانہ پروگرام “نقطہ نظر” میں مہمانِ خصوصی کے طور پرکیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ زندگی ہمہ جہت ہے اور اس کے ہر پہلو اور زاویے کے حوالے سے ہر شخص کا ایک نہ ایک نقطہء نظر ضرور ہے۔ جیسا کہ ہر تیسرا چوتھا شخص محسنِ پاکستان قرار پاتا ہے۔ مجھے محسنینِ پاکستان کی سمجھ نہیں آتی۔ ہم کیسے محسنِ پاکستان ہیں؟ احسان تو ہم پر اس دھرتی کا ہے جس نے ہمیں جنم دیا اور ہم نے اسی دھرتی پر ایک دن مرنا اور دفن ہوجانا ہے۔

نظریہ پاکستان کونسل کے چیئرمین اور تقریب کے صاحبِ صدارت میاں محمد جاوید نے کہا کہ ہم اپنے ادارے کے مشعل بردار ہیں۔ اس لئے آنے والی نسلوں کو اپنے پرکھوں کی تاریخ اور تعلیمات کی روشنی میں راہ نمائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست زاہدملک مرحوم ہمیں ایک مستقل قول دے کر چلے گئے کہ”آئیے سوچیں، ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟”۔ یہی سوال ہم ہر وقت اپنے آپ سے کر کے خود احتسابی کرتے رہتے ہیں۔پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا، مسلم دنیا کے ممالک کے لئے بڑی نوید تھی۔ مجھے آپ جیسے اہلِ علم و دانش سے بڑ ی امیدیں ہیں کہ آپ قلم کے ذریعے جہاد کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے اور پاکستان کی تاریخ جیسی بھی ہے اُسے فخر کے ساتھ بیان کرتے رہیں گے۔

قبل ازیں کونسل کے سینئر وائس چیئرمین عبداللہ یوسف نے کہا کہ آج کے پروگرام میں مہمان شخصیت ڈاکٹر عبدالوحید رانا نےاوراہلِ قلم خواتین و حضرات نے بہت مفید باتیں کیں اور بڑے اہم سوالات اُٹھائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نیت ہو توبڑے سے بڑا کام مکمل کیا جا سکتا ہے۔

پروگرام کی ابتداء میں میزبان و ڈائریکٹر پروگرام حمید قیصر نے مہمانِ خصوصی کے تعارف کے ذیل میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالوحید رانا کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو بڑی خاموشی سے اپنے حصے کا کام کرتے رہتے ہیں مگر اپنے کام کی تشہیر ان کا مزاج نہیں ہوتا۔

معروف نثر نگار و صحافی فریدہ حفیظ نے کہا کہ مجھے ایک مرتبہ اہلِ قلم کے وفد کے ساتھ بھارت جانے کا موقع ملا۔ وہاں ہم سے ملنے والے ہر شخص نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کا رہن سہن ایک اور ہم ایک جیسے ہیں پھر ہم مل جل کر کیوں نہیں رہ سکتے؟ میں نے انہیں کہا کہ آپ نے ابھی تک پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا تو ہم ایک کیسے ہو سکتے ہیں۔

معروف کہانی کار افشاں عباسی نے کہا کہ میرے نزدیک پاکستان سے بہتر جگہ اور کوئی ہے ہی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں اور معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کریں ۔اکرم الوری نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میری شناخت ہے۔ پاکستان کے جواز کا سوال، یا پاکستان کی شناخت کو مشکوک بنانے کی جسارت دشمن کے بیمار ذہنوں کی پیداوار ہے۔

معروف شاعرہ اور افسانہ نگار فرخندہ شمیم نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالوحید رانا پیشہ ورانہ طور پر علم بشریات کے ماہر ہیں اور افسانہ نگار بھی ہیں مگر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے تحت انہوں نے سادہ بیانیہ انداز میں بہت کام کی باتیں کی ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے عہد کے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر وحید رانا کے یونیورسٹی فیلو اور لکھاری داؤد کیف نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کلاس فیلو ہونے اور ہم عصری کا اعزاز حاصل ہے۔ آج انہوں نے درد دِل کے ساتھ بہت سی اَن کہی باتیں کہہ دی ہیں۔

سابق سفیر پاکستان صلاح الدین چوہدری نے کہا کہ میں ڈاکٹر وحید رانا کی گفتگو اور ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ انہوں نے اپنے ناول “ایک شہر کی کتھا” میں جس درد مندی سے اپنے بنگالی بھائیوں کی ہجرت کا احوال لکھا ہے وہ مجھے پڑھنے کی ہمیشہ خواہش رہے گی۔معروف افسانہ نگار عرفان احمد عرفی نے ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں پاکستان کی شناخت کے حوالے سے کہا کہ اعزاز احسن نے اپنی انگریزی کتاب میں لکھا کہ دریائے سند کے کنارے بسنے والوں کی تہذیب گنگا جمنا کی تہذیب سے مختلف ہے اور اسی بات کو مستنصر حسین تارڈ نے اپنے ناول بہاؤ میں بھی بیان کیا۔ اس تقریب میں حفیظ الدین احمد اورعدنان حمید بھی شامل تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں