اتوار کے روز پاراچنار یوتھ اور راولپنڈی و اسلام آباد کے شہریوں کی جانب سانحہ صدہ بائی پاس پاراچنار کے لیے پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔جس میں تعدادبچے بھی شریک ہوئے۔اس موقع پر بچوں نے ہاتھوں میں امن کی علامت سفید پرچم اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر امن کے حق میں اور دہشتگردوں کی عدم گرفتاری کے خلاف نعرے درج تھے۔
مظاہرین بچے ڈاکٹر رقیہ، پاراچنار کے مہمان ادیب شاعر عبد القدیر چچا، ہنگو بائی پاس اور دیگر فائرنگ میں قتل اور زخمیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔
اس موقع پر مقررین نے حکومتی عدم توجہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاراچنار کے شہری اس ملک کے ہی شہری ہیں۔ انکو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
طویل عرصے سے کبھی راستوں میں کبھی بم دھماکوں میں تو کبھی غیر ملکی دہشتگردوں کی پاراچنار پر یلغار قتل عام اور نسل کشی جاری ہے. ہمارے بچے اپنے ہاتھوں میں بندوق کی بجائے قلم پکڑنا چاہتے ہیں، ہم شیعہ سنی امن کے طلب گار ہیں۔مٹھی بھر چند شرپسند کرم کو آگ و خون میں دھکیل دیا ہے۔اگر حکومت نے ہمارے تحفظ کو یقینی نہ بنایا تو ہم مجبور ہو جائیں گے کہ پاراچنار سیمت ملک بھر کی شاہراہوں پر نکل کر فیصلہ کن دھرنا دیں۔
اور دنیا کے مخلتف ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں کے سامنے بھی احتجاج کرینگے۔ لہذا حکومت ہوش کے ناخن لے اور پاراچنار میں امن و امان قائم کرنے میں سنجیدہ اور عملی اقدامات کرے۔ 7 دنوں سے پاراچنار کے راستے بند ہیں۔غذائی قلت روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔سکول یونیورسٹیوں اور کالجز کی چھٹیوں پر آئےاسٹودنٹس بھی پاراچنار میں پھنس چکے ہیں۔پاراچنار کے راستوں کو پرامن بنانے کے لئے ٹارگٹنگ آپریشن کیا جائے اور راستوں کی بندش کو فی الفور ختم کیا جائے۔