وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے تمیر کی رہائشی بیوہ خاتون تعظیم اختر نے کہا ہے کہ تھانہ نیلور کے ایس ایچ او قاسم ضیاء نےدشمنوں کی ساتھ ملی بھگت سے انکےبیٹے ناصر مصطفےٰ عرف ٹھپرو کوحوالات سے غائب کر دیا ہے، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف اور وفاقی وزیر داخلہ سے اپیل ہے کہ وہ انکے بیٹے کو بازیاب کروائیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ پولیس انکےبیٹے کو پولیس مقابلے میں مار دے گی، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اپنی بہو تہمینہ شاہین اورپوتیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تعظیم اخترکا مزید کہنا تھا کہ انکابیٹا ناصر مصطفےٰ جو کہ لاہور کے ایک نفسیاتی ہسپتال میں زیر علاج تھا کو 23 دسمبر 2023ء کو تھانہ نیلورکے ایس ایچ او قاسم ضیاء نےدفعہ 324کے مقدمے میںگرفتار کرکے حولات میں بند کر دیا اور عدالت کی طرف سے بارہ دن کا ریمانڈ حاصل کیا، 5 جنوری کو رات ہم ناصر مصطفےٰکو کھانا دیکر آئے تاہم جب صبح ناشتہ لیکر تھانے میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ناصر مصطفےٰ حوالات میں موجود نہیں ہے پتہ کرنے پرپولیس سے معلوم ہوا کہ رات کو ڈیڑھ بجے ایس ایچ او قاسم ضیاء کی سربراہی میں پولیس ٹیم اسے برآمدگی کیلئے لیکر جا رہی تھی کہ وہ پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا ہے،حالانکہ پولیس پہلے ہی اس سے اسلحہ برآمد کر چکی تھی ، پولیس نے ریمانڈ ختم ہونے پر صبح انکےبیٹے کو عدالت میں پیش کرنا تھا مگر پولیس نے مخالفین کیساتھ ملکر انکےبیٹے ناصر مصطفےٰ عرف ٹھپرو کو ارادہ قتل کی نیت سے غائب کر دیا ہے لہذاٰ انہیں خطرہ ہے کہ انکےبیٹے کو پولیس مقابلہ بنا کر قتل کر دیا جائےگا، ہم پچھلے اٹھارہ دنوں سے تھانوں اور کچہریوں کے دھکے کھا رہے ہیں مگر کہیں بھی ہماری شنوائی نہیں ہو رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ غریب لوگ ہیں، اور یہ انکی دوسری پریس کانفرنس ہے مگر ابھی تک اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ہے اور ابھی تک انکے بیٹے کا کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ وہ کہاں پر ہے لہذا ٰ ہماری وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور وفاقی وزیر داخلہ سے اپیل ہے کہ انکے شوہر کو بازیاب کروایا جائے اور انہیں اور انکے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔
اسلام آباد پولیس کا موقف
اس معملے پر سی این این اردو نے اسلام آباد پولیس کا موقف جاننے کےلئے اسلام آباد پولیس کے ترجمان بات کی تو انہوں نےبتایا کہ جو گرفتار ملزم ناصر محمود والد غلام مصطفی ساکن جسوٹ تمیر اسلام آباد نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ بروز وقوع کے ٹائم جو میرے پاس کلاشنکوف تھی جس سے میں نے فائر مار کر بندہ زخمی کیا تھا وہ کلاشنکوف میں نے گرفتاری سے چند دن قبل سملی ڈیم روڈ سے جو راستہ جسوٹ میرے گھر کی طرف جاتا ہے گیس پائپ لائن کے ساتھ ملحقہ جھاڑیوں میں زمین کے اندر گڑھا کھود کر کپڑے میں لپیٹ کر چھپا کر رکھ دی تھی ساتھ لے جائیں تو وہ کلاشنکوف میں آپ کو برآمد کرواسکتا ہوں ۔ انکشاف کے بعد پولیس ٹیم ایک سب انسپیکٹر کی نگرانی میں ناصر محمود کو ہتکڑی ڈال کر بحراست پولیس جسوٹ روڈ گیس پائپ لائن کے ساتھ روز پر بوقت 01:35 تعبیرات پہنچے تو ملزم ناصر محمود نے خود گاڑی رکوائی نیچے اتر تے ساتھ ہی اچانک 16.7 نا معلوم اشخاص جو کہ پہلے ہی ساتھ قریبی جھاڑیوں اور جنگل ایریا میں چھپ کر بیٹھے تھے اچانک مسلح افراد نے پولیس پارٹی اور گاڑی کا گھیرا ڈال لیا جس پر ملزم ناصر حمود عرف نے سامنے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر آواز دی کہ مجھے پولیس سے چھڑا و تو نا معلوم ملزمان نے پولیس پارٹی پر جان سے مارنے کی نیت سے سیدھی فائرنگ شروع کر دی اور ملزم اپنے ساتھیوں سے ملکر مزاحمت شروع کردی پولیس ملازمین نے سرکاری گاڑی کی اوٹ لیکر اپنے آپ کو محفوظ کرتے ہوئے حفاظت اختیاری کے تحت جوابی فائرنگ کی لیکن یہ نامعلوم ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے ملزم کو بھگا کر سامنے جنگل جھاڑیوں کی طرف لے گئے یہ نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے ایک فائر طارق کانسٹیبل کی پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ پر لگا اور کچھ فائر سرکاری گاڑی پر بھی لگے اور ملزم بھاگنے میں کامیاب ہو گیا