بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ ملک نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں تدریس میں فلسفے کی اہمیت و ضرورت بہت زیادہ ہے کیونکہ اکیڈمی اور فلسفہ ایک دوسرے سے گہرے جڑے ہوئے ہیں اور ماہرین تعلیم و سماجی سائنسدانوں کو ان وضاحتوں طریقوں تجرباتی دلائل اور مفروضوں کو اپنانا چاہئے جو دراصل سماجی سائنس کے ادب، ماضی اور حال میں پایا جاتا ہے کیونکہ ایک سماجی سائنسدان ہی معاشرے کی تقدیر وترتیب دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ان خیالات کا اظہارانھوں نے پیر مہر علی شاہ بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی میں دو روزہ ‘فلسفے کو بیک ان دی اکیڈمک ٹریک پر دوسری بین الاقوامی کانفرنس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا انعقاد بارانی زرعی یونیورسٹی کے شعبہ ایجوکیشن نے کیا تھابارانی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ دانشوروں اور مفکرین کی زمہ داری ہے کہ وہ سماجی اقدار کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے فلسفے کو نافذ کرنے کے طریقے تلاش کریں انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس نہ صرف سوشل سائنسز اور ہیومینٹیز میں تحقیقی اور ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ دنیا بھر میں کام کرنے والے محققین، انجینئرز، طلباء اور پریکٹیشنرز کے درمیان سائنسی معلومات کے تبادلے کو بھی فروغ دے گی بین الاقوامی کانفرنس میں سوشل سائنس کے مختلف مضامین سے متعلق تقریباً 200 تحقیقی مقالے پیش کیے گئے۔ جبکہ امریکہ، آسٹریا اور چین کی مشہور یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی، وائس چانسلر، مسلم یوتھ یونیورسٹی سعید الحسن چشتی،وائس چانسلر بارانی زرعی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم اورپروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، ڈی جی، آئی آر آئی نٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آبادکے علاوہ پاکستان کی وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں سے اکنامکس، ایجوکیشن، سوشیالوجی، اینتھروپالوجی، ہیومینیٹیز اور دیگر کئی کثیر الضابطہ مضامین میں سینئر ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔