”کشمیر کی تاریخ میں آزمائش اور امید کا دن“

27 اکتوبر کشمیر کے لوگوں کے لیے درد اور امید دونوں سے جڑی تاریخ ہے۔ اس دن 1947 میں، ریاست جموں و کشمیر کو ایک اہم لمحے کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ خطے کی تقدیر توازن میں لٹکی ہوئی تھی۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جہاں کشمیریوں کو آزمایا گیا ہو کشمیریوں کی قسمت پر سیاہی تو اٹھارہ سو چھیالیس میں چھا گئی تھی جب انگریزوں نے معاہدہ امرتسر کے تحت عیاری سے کشمیر کا سودا کیا اور دو ٹکوں کے عوض فروخت کر دیا اور ڈوگرہ مہاراجہ کی غلامی میں دے دیا۔ مگر اعلان آزادی ہند کے بعد کشمیریوں کو امید پیدا ہوئی کہ وہ بھی بر صغیر کی تین سو باسٹھ ریاستوں کی طرح اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں گے مگر ایک اور بلا آن پڑی اور ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۷ کو الحاق کشمیر کی ایک فراڈ ولنٹ دستاویز تیار کی گئی جسے بھارت نے آج تک کسی عالمی فورم پر پیش بھی نہیں کیا تھااس الحاق کی جھوٹی دستاویز کی آڑ میں ا گلے روز ستائیس اکتوبر کو بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمانے کے لئے پٹھان کوٹ کے راستے فوجی یلغار کر دی ، یہ راستہ بھی انگریزوں نے ریڈکلف ایوارڈ کے من گھڑت ایوارڈ کے ذریعے بھارت کو دیا تھا حالانکہ یہ علاقہ مسلم اکثریت کی آبادی کا تھاا ور اسے پاکستان میں شامل کیا جانا چاہئے تھا مگر انگریزوں نے بر صغیر میں ایک مستقل تنازعہ کھڑا کرنے کے لئے ایوارڈ میں جان بھوج کر ڈنڈی ماری اور بھارت کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے کے لئے زمینی راستہ دے دیا جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی افواج سے سری نگر پر چڑھائی کردی۔

ستائیس اکتوبر کا یہ دن کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا یوم سیاہ تھا جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتا اور اس روز بھارت نے بربر یت اورنازی جبر کا ا ٓغاز کیا۔ اس کے بعد سے یہ خطہ تنازعات کا ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے، جس کے نتیجے میں کشمیری عوام کو نقصان اور مصائب کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود، ہنگامہ آرائی کے درمیان، کشمیر کے لوگوں نے ایک متاثر کن لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی دہائیوں سے، انہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے غیر متزلزل ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ حق

خودارادیت کی جدوجہد اور امن کی خواہش کشمیری عوام کے دلوں میں آج بھی اسی طرح زندہ ہے۔ یہ دن ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے کہ جب کہ ماضی درد سے بھرا ہوا ہے، مستقبل کو امید سے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ لچک کی ان گنت کہانیوں اور کشمیر کو اپنا گھر کہنے والے لوگوں کی امنگوں کو یاد کرنے کا دن ہے۔ خطے کی تعریف صرف اس کے ماضی سے نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں کے لوگ امن، استحکام اور خوشحالی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ کشمیر یوں کے لیے آگے کا راستہ ایک چیلنجنگ ہے، لیکن یہ ناقابل تسخیر سفر نہیں ہے۔ بات چیت، مفاہمت اور بین الاقوامی تعاون خطے کے بہتر مستقبل کی کلید رکھتا ہے۔ اس دن ہمیں ان لوگوں کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے جنہوں نے صبر کیا اور یاد رکھیں کہ ہر دن ایک روشن اور زیادہ پرامن کشمیر کے لیے جدوجہد کرنے کا موقع ہے۔جب ہم کشمیر میں 27 اکتوبر کی تاریخی اہمیت پر غور کرتے ہیں، تو آئیے کشمیری عوام کی طاقت اور لچک سے متاثر ہوں۔

ان کی کہانی انسانی روح کی برداشت اور ایک بہتر کل کی امید رکھنے کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ آخر میں یہ عوام کی امنگیں ہی تو ہیں جو اس خوبصورت اور شورش زدہ خطے کی تقدیر سنواریں گی۔


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں