کچھ مدعیان کے لیے سب سے مشکل کام عدالتی فیصلے کے بعد آگے بڑھنا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر صورتوں میں، آگے بڑھنا ایک حکم کو “جیتنے” کی کوشش میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے۔ ایک مقدمہ آپ کے خلاصہ فیصلے سے جج کے انکار کے جواب میں نظر ثانی کی تحریک دائر کر رہا ہے۔ یہ دنیا کا خاتمہ نہیں ہے۔ آپ کو بعد میں خلاصہ فیصلے کے لیے آگے بڑھنے کا ایک اور موقع مل سکتا ہے۔ اس لیے وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں۔اس کے علاوہ، نظر ثانی کی تحریکوں میں ایسی چیز سامنے آنی چاہیے جس کو جج نے پہلی بار نظر انداز کیا یا اس سے واقف نہیں تھا۔ اگر آپ کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اپنا اور عدالت کا وقت ضائع کرنے سے بچیں۔ اگر آپ کے پاس نئی معلومات ہیں جس کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ جج کو دوسرے طریقے سے حکمرانی کرنے کے لیے متاثر کیا ہو گا، تو بڑی احتیاط کے ساتھ اور طریقہ کار کے قواعد پر عمل کرتے ہوئے اپنی تحریک پیش کریں۔کچھ حرکات کا جواب ضروری ہوتا ہے۔ تاہم، بہت سارے ہیں جو نہیں کرتے ہیں. اس کی ایک اچھی مثال جو شکایت کا جواب دینے کے لیے وقت کی توسیع کی تحریک ہے۔ آپ اس کا جواب دینے اور عدالت سے بحث کرنے میں اس اضافی وقت سے زیادہ وقت گزاریں گے جتنا دوسرا فریق چاہتا ہے۔ ہر فائلنگ پر مسلسل رد عمل کو روکنے کے لیے اپنی لڑائیوں کو سمجھداری سے چنیں۔ جب آپ شروع سے اپنی حکمت عملی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو آپ کچھ فائلنگ کو جواب نہیں دے سکتے ہیں۔ اس طرح، آپ وقت اور پیسہ ضائع نہیں کرتے ہیں۔جبکہ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ 4 سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔سماعت شروع ہونے پر ایم کیو ایم(پاکستان) کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواستیں قابل سماعت ہونے کا سوال نہیں اٹھاوں گا، درخواست گزاروں نے جن دو فیصلوں کا حوالہ دیا ان پر بات کروں گا، ایک باز کاکڑ کیس کا حوالہ دیا گیا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر درخواست گزاروں کی ان فیصلوں کی تشریح درست ہو پھر تو ایکٹ غلط ہے، ان فیصلوں اور موجودہ کیس میں مگر فرق ہے، کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں لا کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ تھا کہ کیا سبجیکٹ ٹو لا کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے؟دوران سماعت چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس منیب اختر نے وکیل کو سوال پر فوکس کرنے کی ہدایت دی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے وکیل کا حق ہے وہ جیسے دلائل دینا چاہے دے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کے طور پر سوال کرنا میرا حق ہے، آئی ایم سوری مجھے بار بار ٹوکا جائے تو یہ درست نہیں۔چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ سوالات کا جواب دینے کے بجائے اپنی بات پہلے مکمل کریں، بینچ اراکین سے درخواست کروں گا پہلے انہیں بات مکمل کرنے دیں۔چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لا کا کیا مطلب ہے؟چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہ%