سچ بولنے سے اتنا ڈر کیوں، لکھیں کہ نظرثانی درخواست کا حکم کہاں سے آیا، قاضی فائز عیسی

پاکستان کے قانونی منظر نامے کے پیچیدہ جال میں، چند مقدمات نے ملک کے عدالتی اور سیاسی بیانیے پر اتنا گہرا اثر چھوڑا ہے جتنا فیض آباد دھرنا کیس۔ جیسا کہ نظرثانی کی درخواست بالآخر سپریم کورٹ کے ذریعہ لے لی گئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کیس کی بے مثال نوعیت پر نظرثانی کی جائے اور اس کے ممکنہ نتائج اور راستوں کا کھوج لگایا جائے۔فیض آباد دھرنا کیس 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر دیے گئے طویل اور متنازعہ دھرنے سے ابھرا۔ آئین، اور آزادی اظہار کے تعطل کی حدود کے تناظر میںسپریم کورٹ نے اپنے ازخود دائرہ اختیار کے تحت ایک مقدمہ شروع کیا، جو عام طور پر عوامی اہمیت یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں عدالت کو اپنی مرضی سے معاملات کا نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے، ۔ تاہم سپریم کورٹ کے سامنے نظرثانی کا دائرہ اختیار حد سے زیادہ محدود ہے، اور اس فیصلے میں کافی حد تک تبدیلی یا منسوخی کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت تین بار منتخب وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا، اور ان کی جیل جانے کی تیاریاں جاری تھیں۔ سیاسی جماعتیں اہم تبدیلیوں سے گزر رہی تھیں، جن میں سے ایک کو ختم کیا جا رہا تھا اور دوسری، پی ٹی آئی کو بھرپور حمایت حاصل تھی۔زیادہ تر اعلی عدلیہ اور میڈیا نے بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے سے ہم آہنگی کی تھی۔ یہاں تک کہ دھرنے کے وقت منتخب حکومتوں نے، جن کی قیادت مرکز میں شاہد خاقان عباسی اور پنجاب میں شہباز شریف کر رہے تھے، نے اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کو چیلنج کرنے سے گریز کیا، جو مذہبی انتہا پسندوں تک پھیلا ہوا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ اس ہائبرڈ تجربے کے عروج پر آیا، جس میں ایک نئے وزیراعظم نے ایگزیکٹو اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ہی صفحے کو جوڑا گیا۔ خود عدلیہ بھی اس تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ دار بن چکی تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس سے قبل ان کے ساتھیوں نے اس وقت عہدے سے ہٹا دیا تھا جب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دبا کو بے نقاب کیا تھا۔اس چارج شدہ ماحول میں، تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) سے وابستہ مذہبی انتہا پسند سڑکوں پر گھومتے رہے، تشدد کو بھڑکاتے اور ارتکاب کرتے رہے۔ ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موقف اختیار کرنا، ایگزیکٹو پر سوال اٹھانا، پی ٹی آئی سمیت قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنانا، حتی کہ عدلیہ کی جانچ پڑتال بھی ایک غیر معمولی جرت کا کام تھا، اس لیے کہ اس طرح کے اختلاف کے خلاف مضبوط قوتیں صف آرا ہیں۔اقتدار میں موجود جرنیلوں کے خلاف فیصلہ سابقہ مقدمات کے برعکس جہاں فوجی جرنیلوں کے خلاف فیصلے انہیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آئے تھے، اس فیصلے نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ نظام کو نشانہ بنایا۔سابقہ مقدمات، جیسے عاصمہ جیلانی کیس میں یحیی خان کے خلاف اشتہاری قرار، ایئر مارشل اصغر خان کیس میں جنرل اسلم بیگ کے خلاف فیصلہ اور پی سی او ججز کیس میں جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ہدایت، یہ سب کچھ فوجی حکام کے اپنے دور کے بعد سنا گیا۔اس کے برعکس، یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فوج ایک اور زیادہ غالب قوت بن چکی تھی، اور جرنیلوں کو ترقی دی گئی تھی، جس سے جنرلوں کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ہی جوابدہ ٹھہرانے کے قائم کردہ اصولوں سے ایک اہم رخصتی ہوئی تھی۔مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار سے نمٹنااس فیصلے کے سب سے نمایاں پہلوں میں سے ایک مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار کا غیر متزلزل جائزہ تھا۔ فیصلے نے ان نازک مسائل سے گریز نہیں کیا اور ان کو سر توڑ جواب دیا۔جسٹس عیسی نے ریاستی اداروں بالخصوص آئی ایس آئی کے کردار پر سوال اٹھائے جو کہ تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی)اور دیگر گروپوں کی طرف سے لاحق پرتشدد انتہا پسندی کے خطرے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے سیاسی اہمیت کے معاملات میں آئی ایس آئی کی مبینہ مداخلت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ایجنسیوں کو کبھی کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ فیصلے میں مسلح افواج کے آئینی کردار کی پاسداری اور اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔مزید برآں، فیصلے میں مسلح افواج کے ان ارکان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے مخصوص ہدایات دی گئیں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانونی فریم ورک کے تحت لانے پر بھی زور دیا۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے سویلین اداروں کی حمایت کی ہے۔ اس کا مقصد ان اداروں اور میڈیا کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بے جا اثر و رسوخ سے بچانا تھا۔ آزاد پریس اور آزاد اداروں کے تحفظ پر یہ زور جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔فیصلے میں مذہبی انتہا پسندی اور ٹی ایل پی جیسے گروہوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے تعصب کے خلاف ایک جرات مندانہ موقف اختیار کیا گیا۔ اس نے الفاظ کو کم نہیں کیا اور مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت ہدایات جاری کیں۔ اس پرعزم انداز نے بنیاد پرستی کو روکنے اور سماجی ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے عدلیہ کے عزم کو اجاگر کیا۔فیض آباد دھرنا کیس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت پاکستان کے عدالتی، سیاسی اور وسیع تر منظرنامے کے لیے دور رس نتائج کی حامل ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ جسٹس عیسی اور ان کا خاندان مشکل وقت سے گزرا حتی کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی بالآخر تسلیم کیا کہ جسٹس عیسی کے خلاف ریفرنس اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کی وجہ سے ایک غلطی تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئی۔اس اندرونی جھگڑے نے سپریم کورٹ کی ساکھ اور اختیار کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت کے اختتام تک، انہیں عام انتخابات سے متعلق اپنے احکامات کو نافذ کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔یہ تقسیم صرف عدالت کی چاردیواری کے اندر ہی نہیں رہی – ان کے پاکستان میں شہری آزادیوں کے لیے اہم نتائج تھے، خاص طور پر 9 مئی کے بعد۔ آج، عدالتی احکامات کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، اور یہاں تک کہ سیاسی طور پر الزامات کے مقدمات میں زیادہ وزن نہیں رکھتے سب سے قدیم قانونی تحفظ، یک طرفہ برش بھی ایسا نہیں کرتا۔ عدالت کے اختیارات کا یہ کٹا واور شہری آزادیوں پر پڑنے والے اثرات اس بات کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس نے پاکستان کے قانونی اور سیاسی منظر نامے پر کس طرح اپنا اثر چھوڑا۔فیصلے کا نفاذ: اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم آگے بڑھنے کا ایک ممکنہ راستہ جسٹس عیسی کا اپنے فیصلے پر عمل درآمد پر اصرار کرنا شامل ہے۔ اس میں مسلح افواج کے ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ ایسا اقدام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم، براہ راست تصادم جسٹس عیسی کی دیگر اہم معاملات کو حل کرنے اور اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو موثر طریقے سے آگے بڑھانے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کو عدلیہ کے اندر ساتھی تلاش کرنے کے مواقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ راستہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے، کیونکہ یہ ایک طویل اور تفرقہ انگیز جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔مشرف غداری کا مقدمہ ان پیچیدہ اور کثیر جہتی نتائج کی ایک پرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے جو احتساب کی پیروی، خاص طور پر ریٹائرڈ جرنیلوں کی سیاست، جمہوریت اور عدلیہ کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ کا یہ واٹرشیڈ لمحہ، جہاں ایک سابق فوجی حکمران کو آئین کو توڑنے کے لیے جوابدہ ٹھہرایا گیا، اس کے نتیجے میں اہم سیاسی ہلچل پیدا ہوئی، جس میں نواز شریف جیسی اہم شخصیات کو عہدے سے ہٹانا اور مقدمے میں شامل ہائی کورٹ کے جج، چیف جسٹس سیٹھ وقار کی پراسرار موت شامل ہے۔۔جیسا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید جیسے ریٹائرڈ جرنیلوں کو جوابدہ بنانے کے بارے میں بات چیت جاری ہے، مشرف ٹرائل اس طرح کی کوششوں سے منسلک پیچیدگیوں اور ممکنہ خطرات کے بارے میں قابل قدر بصیرت پیش کرتا ہے، جمہوری اصولوں کے تحفظ کے لیے ایک محتاط اور شفاف طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔دوسری طرف، اگر جسٹس عیسی اس معاملے کو حتمی نتیجے تک نہ پہنچانے کا انتخاب کرتے ہیں، تو انہیں سمجھوتہ کرنے یا پیچھے ہٹنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر عملی معلوم ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست ٹکرا سے گریز کرتا ہے، لیکن اس سے انصاف،احتساب اور عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔سچائی کا لازمی تقاضااس سے قطع نظر کہ کوئی بھی راستہ چنا گیا ہو، پاکستان کو ایک ناقابل تردید ضرورت کا سامنا ہے – ایک ایماندارانہ حساب کتاب یا سچائی اور مفاہمت کی کسی شکل کی ضرورت۔ بنیادی مسائل کو حل کرنا اور کہاوت والے ہاتھی کو کمرے میں تسلیم کرنا سیاست میں فوج کا غیر ضروری اثر پاکستان کی جمہوری ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔اس طرح کے حساب کتاب کے بغیر، پاکستان کا جمہوری عمل چیلنجوں کا سامنا کرتا رہے گا، اور شہری آزادی خطرے میں رہے گی۔ یہ ایک ایسا سنگم ہے جہاں پاکستان کو اپنے ماضی کا مقابلہ کرنے کا انتخاب کرنا چاہیے اور ایک زیادہ جوابدہ اور منصفانہ مستقبل کی طرف ایک راستہ طے کرنا چاہیے، جہاں ادارے اپنے متعین کردار کے اندر کام کرتے ہیں، اور قانون کی حکمرانی غالب ہے۔بانی بابا محمد علی جناح کے الفاظ میں، پاکستان کا تصور جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر مبنی تھا، نہ کہ بیوروکریسی یا آمریت۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرے اور ایک روشن، زیادہ جوابدہ مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا، کیونکہ قوم کی ترقی کا انحصار اس اصولی تضاد کو دور کرنے پر ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ میں اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے بھی اپنی اپنی درخواست واپس لے لیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے، خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم نظر ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے، کوئی وجہ ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔وکیل پیمراحافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر درخواست واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں، ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے۔عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو پریشان کیے رکھا، اب سب کہہ رہے ہیں درخواستیں واپس لینی ہیںچیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا کور دلائل دینے ہیں، اسے آئندہ سماعت پر دے دینا۔درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا آپ کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا موقف درست ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کیے رکھا، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ملک صاحب آپ جیسے سینئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا تمام اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے، فیض آباد دھرنا لینڈ مارک فیصلہ ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیس نے کہا کہ ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، یہاں سب خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کریں، یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پا، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے، کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پاو؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا، یہ ادارہ ہے، ہر ایک کااحتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں، چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے ، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنھیں نظرثانی دائر کرنا چاہیے تھی، انھوں نے نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے، پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے یا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا، پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔عدالت عظمی نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل امام اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہیں جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کانظر ثانی دائر کرنے پر معافی نامہ کدھر ہے، چیف جسٹس نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنے وکیل پر اعتبار نہیں جو بول رہے ہیں جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے معذرت کر لی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم درخواست واپس لے رہے ہیں، یا تو آپ کہیں دھرنے والوں کے ساتھ معاہدے پر جس کے دستخط تھے ان کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں، یا تو بتائیں نا کہ ہم نے فیصلے کی فلاں فلاں باتوں پر عمل کر لیا، یا پھر ایسے ہی اگلی افرا تفری تک رہنے دینا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 12 مئی کو پاکستانی سیاست میں نئی چیز کنٹینرز متعارف ہوئی، ایم کیو ایم آج یہاں ہمارے سامنے آئی ہی نہیں، ایم کیو ایم کے ایک وزیر تھے آج ان کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات ہر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے سورہ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی یہ درخواستیں نمٹا نہیں رہے، پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم فیصلے کو درست مانتے ہیں، نظرثانی نہیں چاہتے، علی ظفر صاحب کیا یہ درست ہے۔علی ظفر نے کہا کہ جی درست ہے، ہم فیصلے کو چیلنج نہیں کر رہے، عدالت عظمی نے کہا کہ جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے عدالت نے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر لیے۔عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ آج سب فریقین موجود نہیں تھے، فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا فیصلہ پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے۔حکمنامے میں کہا گیا کہ کچھ فریقین نے کہا عدالت نے فیصلے سے پہلے ان کو سنا نہیں، ایسے بیانات سرپرائزنگ تھے کیونکہ سماعت اوپن کورٹ میں تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کتنا وقت دیں ،اٹارنی جنرل نے 2 ماہ کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ براہراست کارروائی نشر کرنے والے معاملہ پر کمیٹی بنائی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلی سماعت کو انڈیا پاکستان میچ سے زیادہ دیکھا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو ریونیو میں ہمارا حصہ کہاں گیا۔گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی تھیں۔گزشتہ روز پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور اس سے ایک روز قبل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں تھیں جب کہ درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی۔یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کئی برس قبل اپنے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اپنی کمانڈ کے اہلکاروں کو سزا دیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جہاں 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔بعد ازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔27 نومبر 2017 کو حکومت نے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔بعد ازاں عدالت عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں