پاکستان میں مسائل کے حل کے لیے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بحال اور کمیونیکیشن سسٹم کو موثر بنانا ہوگا۔اقوام متحدہ کے کے پاکستان کے لیے مندوب نے پیر کے روز پریس کانفرنس کی.خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاجنرل اسمبلی اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کا جائزہ لے گی۔پاکستان اور دنیا کو شدید موسمیاتی تغیرات کا سامنا ہے۔اگلے چند روز میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی دیکھے گی کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کیااقدامات لینے کی ضرورت ہے۔مسائل کے حل کے لیے مضبوط بلدیاتی نظام ہونا چاہئیے۔
لوکل سسٹم کو بحال اور کمیونیکیشن سسٹم کو موثر بنانا ہوگا۔مضبوط معیشت کے حامل ممالک آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتے۔ایم ایف معیشت کو چلانے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔پاکستان کو اپنے معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔وقت آگیا ہے پاکستان کی حکومت اور بیوروکریسی اپنےاخرجات کم کرے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے مندوب جولین ہارنئس نے مزید کہا کہ آج نیو یارک میں پاکستان کے وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے ملاقات ہو رہی ہے۔2030 تک کے لیے ہم نے پانچ ٹارگٹ مقرر کیے ہیں جن میں سوشل پروٹیکشن اور پاکستان کی بہتری کے اقدامات ،سیوریج اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانی ہے۔بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث پاکستان کی 95فیصد آبادی مشکلات کا شکار ہے۔
میں نے پاکستان کے 12شہروں بہاولپور، ملتان، حیدرآباد، سکھر، سیالکوٹ، فیصل آباد، مانسہرہ وغیرہ کے دورے کئے ہیں۔اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ ذاتی دورہ کر کے دیکھا ہے ان شہروں میں ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہیے۔
پاکستان کی آبادی بڑھتی جارہی ہے لوکل سطح پر اختیارات منتقل ہونے چائیے ہیں۔پاکستان میں سیلاب کے بعد اب تک حالات معمول پر نہیں آسکے۔اندرون سندھ میں ابھی بھی بہت سارے بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔
پاکستان میں لوکل سطح پر یونین کونسل میں بلدیاتی نظام کا وجود ختم کردیا گیا۔ مسائل کے حل کے لیے مضبوط بلدیاتی نظام ہونا چاہئیے۔
راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 25لاکھ ہے تاہم راولپنڈی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی بلدیاتی نمائندہ نہیں مسائل کے حل کے لیے کمشنر کے پاس جانا پڑتا ہے پاکستان کے لوگوں کی اکثریت راولپنڈی اسلام آباد لاہور میں نہیں تحصیلوں اور یونین کونسل میں رہتی ہے۔مسائل کے حل کے لیے لوکل سسٹم کو بحال اور کمیونیکیشن سسٹم کو موثر بنانا ہوگا ،آئی ایم ایف صرف معیشت کو چلانے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ تسلیم کرتا ہوں ہم کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرسکےامید رکھنی چاہئیے کہ مستقبل میں بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرلیں گے۔کشمیر کے مسئلے پر جنرل اسمبلی میں بات ہوتی ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہئیے۔قوام متحدہ مسائل پر بات چیت کا فورم ہےہم طاقت کا استعمال کرکے مسائل حل نہیں کرتے،یوکرائن اور روس کی جنگ نے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیئے ہیں۔