مسیحی اقلیتی اتحاد کے سربراہ سسمین سہیل کاکہنا ہے کہ مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیئے نیشنل کرائسس ریسپونس الائنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔جس میں ملک بھر کے تمام شہروں سے مسیحی افراد شامل ہیں۔مسیحی ایک قوم کی صورت میں میدان میں اتریں گے۔
ہفتہ کے روز اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سسمن سہیل نے کہا ہم کسی سانحہ کاردعمل دینے کی بجائے اظہار کریں گے۔1997 سے مسیحیوں پر اجتماعی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جڑانوالہ حملوں کے بعد وقتی طور پر حکومت نے امداد کی ہے مگر مسلے کا سدباب نہیں کیا گیا۔ہر مکتبہ فکر کے لوگ وہاں جا کر اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ مگر ملک بھر میں مسیحی اقلیت میں جو خوف و ہراس کی کیفیت ہے اس کا سدباب نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا اس خوف کی صوتحال کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے عملی طور پر اقدامات کیئے جائیں۔ایسے حملوں کے نتیجے میں مسیحی اقلیت خوف کا شکار ہے۔ہمیں احساس دلایا جا رہا ہے ہم یہاں اجنبی ہیں۔مگر ہم خود کو فخریہ پاکستانی قرار دیتے ہیں۔
ہندو سکھ کو بھی کمتر شہری قرار دیاجا رہا ہے۔حکومت اور ریاست ہمارے ملک کے ہر شہری کو برابر کے حقوق اور تحفظ دینے کی پابند ہے۔مذہبی اقلیت کوتحفط فراہم کرنے اور ان کے خوف پر ٹھوس پالیسی بنا کر ضروری اقدامات کیئے جائیں۔
سسمن سہیل نے کہا اقلیتوں پر حملوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔جو ہر پاکستانی کے لیے باعث شرم ہے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لیے بھی باعث شرم ہے۔
اقلیتوں کو تحفظ دینے کے نتیجے میں ملک دشنوں پر خوف طاری ہو گا۔جڑانوالہ واقع کی مذمت اور امداد تو دی گئی مگر مقدمات کا اندارج اور گرفتاریاں نظر نہیں آ رہیں۔ستم گر مسیحیوں پر حملوں کے لیے ہر مرتبہ ایک ہی طریقہ کار سے واردات کرتے ہیں۔1997 سے لے کر اب تک تمام واقعات کا طرز حملہ یکساں ہے تو مجرموں میں بھی ربط موجود ہے۔
انہوں نے کہا توہین مذہب کے قانون کا اطلاق زبور، تورات اور انجیل کی توہین پر ایسے ہی نافذ کیا جائے جیسے قران پاک کی توہین پر عمل میں لایا جاتا ہے۔توہین مذہب کا قانون بنانے کے بعد توہین کے واقعات تھم نہیں رہے۔یہ قانون تمام انبیا کی توہین پر عمل میں لایا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا جس پر توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے اس کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔جبکہ الزام لگانے والے کو بھی گرفتار کرنا چاہیے۔یہاں ملزم نامزد ہوتے ہی فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور قانون کا اطلاق ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔
جڑانوالہ واقعہ کے مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جائے اور اس واقعہ کوسیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ہمارے آئینی حقوق ہمیں فراہم کیئے جائیں گے؟ یا ہمیں حقوق مانگنے پر مجبور کیا جائے گا۔ہمارے نصاب میں نفرت انگیز مواد شامل کیا گیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں نفرت انگیز ماحول بنا دیا گیا ہے۔نصاب میں ترمیم کی فوری طور پر ضرورت ہے۔
ملک دشمن مذہبی اور مسلکی فرقہ واریت کے زریعے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ قبرستانوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔
بائبل جلائی گئی ہیں۔چرچ جلائے گئے ہیں۔
کسی ایک مجرم کو تو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔