راولپنڈی ویمن یونیورسٹی میں ری ویمپڈ سائنٹیفک آؤٹ لک آف 21st سینچری پر تیسری بین الاقوامی سائنسی کانفرنس

جمعرات کے روز منعقدہ کانفرنس میں باٹنی، کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس، آئی ٹی، ریاضی، شماریات اور زوالوجی جیسے مختلف شعبوں سے وابستہ قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے محققین اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی، جس کا مقصد سائنسی ترقیات کا جائزہ لینا اور جدید عالمی چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر ضیاء القیوم ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے معاشرے کو فائدہ پہنچانے والی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اسکالرز کو بنیادی تحقیق پر توجہ دینے کی ترغیب دی جس سے حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایچ ای سی نے اس سال اپنی تحقیقی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے اور اب ہم اپنے تحقیقاتی بجٹ کا 30 فیصد بنیادی تحقیق کے لیے مختص کریں گے۔
انہوں نے ڈاکٹر انیلا کمال کی قیادت اور یونیورسٹی کی سائنسی تحقیق اور علمی خدمات کے فروغ کے عزم کو سراہا۔
راولپنڈی ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیلا کمال نے کہا کہ راولپنڈی ویمن یونیورسٹی خواتین کو سائنس میں بااختیار بنانے اور بین الشعبہ جاتی تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کی تعلیمی خدمات پر اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی کانفرنسز کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ “مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو اکٹھا کر کے ہم تخلیقی سوچ کو فروغ دینے اور جدید عالمی مسائل کے حل کی جستجو کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔”

پروفیسر ڈاکٹر رؤف اعظم وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد نے کلیدی مقرر کے طور پر سائنسی ترقی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،مشین لرننگ اور بگ ڈیٹا پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جدید سائنس کو معاشرتی اقدار کے ساتھ منسلک ایک اخلاقی فریم ورک کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سسٹینیبلٹی سمیت اہم مسائل سے نمٹا جا سکے۔

کانفرنس میں پاکستان سمیت دس سے زائد ممالک، بشمول اٹلی، سعودی عرب، جنوبی کوریا، برطانیہ، سویڈن، رومانیہ، پولینڈ، مصر، امریکہ، چین، اور ترکی کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے شرکت کی۔ ان اداروں کی نمائندگی 13 کلیدی مقررین نے کی، جنہوں نے مختلف سائنسی موضوعات پر عالمی نقطہ نظر پیش کیے۔

کانفرنس میں 209 تحقیقی مقالے اور پوسٹرز پیش کیے گئے، جس نے شرکاء کو اپنی تحقیقی کاوشوں کو پیش کرنے اور مختلف شعبہ جات کے موضوعات پر تبادلہ خیال کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ ایک اہم پینل ڈسکشن سیشن میں ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ماحولیاتی مسائل کے حل اور سسٹین ایبل طرز عمل کو فروغ دینے پر روشنی ڈالی۔

نیشنل اسکلز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مختار بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تیز رفتار سائنسی و تکنیکی ترقی کا دور ہے اور ہمیں مستقبل کی ضروریات کے مطابق سسٹینیبل تحقیق کی ضرورت ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کانفرنس نے باہمی تعاون اور تحقیق کے فروغ کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کا کردار ادا کیا ہے۔

اس کانفرنس نہ صرف عالمی مسائل کے حل میں بین الشعبہ جاتی تحقیق کے کردار کو اجاگر کیا بلکہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے ایسی سائنسی کمیونٹی کو فروغ دیا گیا جو حقیقی دنیا کے چیلنجز کو حل کرنے اور SDGS کے حصول کے لیے پرعزم ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں