پاکستان واٹر ویک 2024 کے موقع پر بین الاقوامی واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نےکہا ہے کہ پاکستان کو درپیش بڑھتے ہوئے موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کی اہمیت ہے۔ پاکستان میں پانی اور خوراک کے تحفظ کی ضمانت” کے عنوان سے اس کانفرنس میں پروفیسر اقبال نے پاکستان کے موسمیاتی خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں1 فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود اسے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا ہے۔
پروفیسر احسن اقبال نے کہا “پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات کا بوجھ اٹھا رہا ہے جو زیادہ تر دیگر ممالک کی غیر ذمہ درانہ ترقی کا نتیجہ ہیں۔ دو ہزار بائیس کے تباہ کن سیلاب کے دوران، پاکستان کے غریب عوام نے بھاری قیمت ادا کی۔” انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موسمیاتی موافقت اور وسائل کے تحفظ کے اقدامات کے لئے عالمی تعاون ضروری ہے۔
پاکستان کی اقوام متحدہ کے واٹر کانفرنس، اسٹاک ہوم ورلڈ واٹر ویک، اور افریقہ واٹر ویک جیسے عالمی فورمز میں فعال شرکت موجود ہے، جس سے پاکستان کی موسمیاتی موافقت اور پانی کے تحفظ کے لیے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم فوری اقدام کریں، کیونکہ ہمارے بچوں کا مستقبل ہمارے آج کے اقدامات پر منحصر ہے۔”
انہوں نے کہاوپاکستان دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی نظام کا حامل ملک ہے، ہمیں آبادی میں اضافے، صنعتی ترقی اور ماحولیاتی انحطاط سے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کی زراعت پانی کے وسائل کا 90% سے زیادہ حصہ استعمال کرتی ہے، لیکن غیر موثر آبپاشی کے طریقوں کے باعث 40 فیصد تک پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران سیلاب، خشک سالی اور گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے موسمیاتی واقعات نے 4 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا۔
ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا 12.2 فیصد حصہ پانی کے وسائل کے لیے مختص کیا ہے، جبکہ رواں مالی سال میں اس شعبے کے لیے 98 ارب روپے کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔ پاکستان کے 5 ایز فریم ورک میں ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کو نمایاں مقام دیا گیا ہے، جو پانی اور خوراک کے تحفظ کے لیے پائیدار طریقوں اور خود کفیل موافقت کے اقدامات پر زور دیتا ہے۔
ریچارج پاکستان جیسے اقدامات سیلابی میدانی علاقوں اور آبی ذخائر کے انتظام کے ذریعے ایکو سسٹم کے تحفظ کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے 10 ملین سے زیادہ افراد مستفید ہوں گے اور سیلاب کے خطرات کم ہوں گے۔
پروفیسر احسن اقبال نے غذائی تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ زراعت پاکستان کی افرادی قوت کا 40 فیصد فراہم کرتی ہے اور جی ڈی پی میں 20 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ گرین ریولوشن پروگرام آئندہ دو سالوں میں غذائی عدم تحفظ کو 30 فیصد تک کم کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ اسی طرح، انکم سپورٹ پروگرام 80 لاکھ سے زیادہ خاندانوں تک رسائی فراہم کرتا ہے، جو کم وسائل رکھنے والی آبادیوں کے لیے خوراک کی رسائی کو یقینی بناتا ہے۔
انہوں نے کہا، “ٹیکنالوجی اور جدت مستقبل کے تحفظ کے لیے کلیدی ہیں”، اور پاکستان پریسین ایگریکلچر، سیٹلائٹ مانیٹرنگ، اور اے آئی پر مبنی واٹر مینجمنٹ سسٹمز میں پیش رفت کر رہا ہے ۔