۔PWD کو بند کرنے کی بجائے اس کے بدعنوان افسران کے خلاف کاروائی کی جاۓ۔پاک پی ڈبلیو ڈی آئینی ادارہ ہے اسے آئین میں ترمیم کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ادارے کو بند کرنے کے بجائے کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
اتوار کے روز اسلام آباد میں پاک پی ڈبلیو ڈی کے کنسٹریکٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر راجہ ہارون رشید نے کہا ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کی پورے ملک میں کھربوں روپے کی زمین اور عمارات کو ہڑپ کرنے کیلئے اسے ختم کرنے کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا پاک پی ڈبلیو ڈی آئینی ادارہ ہے اسے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔وزیر اعظم نے تجاویز کیلئے جو کمیٹی بنائی ہے اُس میں وزارت قانون کا کوئی نمائندہ شامل نہیں جس سے قانونی رائے لی جاسکے۔
ادارے کو بند کرنے کے بجائے بوعنوانی اور کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اوراسے بند کرنے کی بجائے فعال کیا جائے تاکہ لوگوں کا روزگار بحال رہے۔
اپنے دیگر عہدے داوں کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر ادارے کو زبردستی بند کرنے کی کوشش کی گئی تو عدالت جانے سمیت احتجاج کے تمام راستے اختیار کرینگے۔پاک پی ڈبلیو ڈی پاکستان کے آئین 1973 کے بزنس رول کے مطابق واحد ادارہ ہے جو وفاقی حکومت کے تمام تعمیراتی کام سر انجام دے سکتا ہے۔ اور یہ 1973 کے بزنس رول اور جنرل فنانشل رول میں دیئے گئے اختیارات کے تحت اپنا کام کرتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد اس ادارے نے 2 دارلخلافے بنانے میں اہم کردار ادا کیا، پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں اس ادارے کو قائد اعظم کے مزار سمیت بہت سی اہم عمارات اور پل بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔اسلام آباد کی پہلی اینٹ لگانے کا اعزاز بھی اس ادارے کے پاس ہے۔
اب وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ پاک پی ڈبلیوڈی کو بند کر دیا جائے،وزیر اعظم کو یہ حکم دینے سے پہلے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ ادارہ کسی آئین کے تحت وجود میں آیا، اگر اسے بند کرنا ہے تو 1973ء کے آئین میں دو تہائی اکثریت سےترمیم کرنی پڑے گی اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کتنے ملازمین بشمول ورک چارج اس ادارے سے منسلک ہیں،کتنے کنٹریکٹرز بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔