وسطی پنجاب میں مسیحوں پر توہین مذہب کا الزام لگا کر ان کو کچلنے کا کلچر ترتیب پا چکا ہے۔حکومت حقوق تک رسائی کو ممکن بنانے میں ناکام ہے مگر کم ازکم جان اور مال کا تحفظ تو ممکن بناۓ۔
سرگودھا مجاہد کالونی میں قرآن پاک کی توہین کے مبینہ الزام میں نذیر مسیح ایک ستر اسی سالہ نہتے بزرگ پر وحشیانہ تشدد کر کے قتل کرنا ایک شرمناک اور غیر انسانی فعل ہے۔یہ سانحہ بھی جڑانوالہ اور اس سے پہلے ہونے والے واقعات کا تسلسل ہے جس میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
جمعہ کے روز پنجاب بار کے چیئرمین براۓ انسانی حقوق کمیٹی وحید جاوید ایڈوکیٹ نے شاہد محمود لنگڑیال ایڈووکیٹ، ریورنڈ فادر جیکب ڈوگرہ، ریورنڈ پاسٹر راشد منظور، پاسثر عادل گل، عدنان جاوید ایڈووکیٹ، آرتھر جیمس ایڈووکیٹ، عامر مہتاب ایڈووکیٹ ، گیبرائیل فرانسس ایڈووکیٹ اور دیگر کے ہمراہ اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس منعقد کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہاگر ہمارے حکمرانوں نے 2014 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق پر دیۓ گئے حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہوتا تو آج ایسے واقعات دیکھنے کو نہ ملتے۔
اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعہ کے بعد موجود قانون جس میں سنئیر پولیس آفیسر کی انکوائری کے بعد FIR درج کرنے پر سختی سے عمل کروائے۔سانحہ سرگودھا میں نذیر مسیح کیخلاف درج FIR کی مکمل تحقیقات کی جائے تاکہ واقعہ کے حقائق سامنے لائے جاسکیں۔اگر نذیر مسیح پر الزام ثابت نہیں ہوتا تو جو دفعات اس پر لگائی گئی ہیں انہی کے تحت الزام کندہ پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا نہ صرف سرگودھا بلکہ ملک بھر میں ضلعی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے قائم کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے تاکہ اس طرح کے واقعات میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کردار ادا کرسکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف ، چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداران کو مرحوم نذیر مسیح کے خاندان کے نہ صرف مالی نقصان کو پورا کرنے کے لیے گرانٹ جاری کرنی چاہیئے بلکہ داد رسی کے لئے متاثرہ خاندان کے گھر جانا چاہئیے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سرگودھا واقعہ کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے دی گئی سفارشات پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔