زیادہ پرانی بات نہیں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی گھروں میں پیٹیاں کھلتی تھیں، اور نئے موسم کے کپڑے نکال کر جاتی رت کے کپڑے سمیٹ کر واپس پیٹیوں میں ڈال دئیے جاتے تھے، اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جو ضرورت سے زائد کپڑے ہیں وہ نکال کر غریبوں میں بانٹ دئیے جائیں تاکہ ضرورت سے زیادہ سامان اکٹھا نہ ہو اور ساتھ کسی کی مدد بھی ہو جائے۔ وقت بدلا، حالات بدلے اور خیالات بھی۔۔
بلاشبہ مہنگائی ہے اور بےتحاشا مہنگائی ہے اس نے غریب طبقے کو تو متاثر کیا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کے لیے مسائل مزید بڑھا دئیے اور سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بجائے بڑھنے کے مزید کم ہو گیا ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جو مہنگائی کے باوجود آسائشیں افورڈ کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایک ایسا طبقہ ہے جو نہ تو مانگ سکتا ہے اور نہ حالات چھپا سکتا ہے کیونکہ حالات چھپائے نہیں چھپ رہے۔
آجکل فیس بک پر ایک رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لوگ پری لووڈ (pre loved) اشیاء فروخت کے لیے لگاتے ہیں ان میں کراکری سے لے کر فرنیچر، الیکٹرانکس کی اشیا، پرانے بیگز، کاسمیٹکس اور بچوں، بڑوں کے کپڑے تک شامل ہیں۔ لوگ اب گھروں میں فالتو پڑی کراکری ، غیر ضروری دیگچے، استعمال سے زائد فرنیچر سب کچھ بیچ رہے ہیں۔ویسے تو یہ مناسب ہے کہ غیر ضروری سامان کو فروخت کر دیا جائے لیکن وہ لوگ جو اس مہنگائی میں اچھے مناسب کپڑے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خرید رہے ہیں وہ پرانے کپڑے جو اچھی حالت میں ہیں ان کو دوبارہ سیل کرنے کے بجائے اگر کسی سفید پوش کی مدد کر دیں تو ممکن ہے کہ ہزاروں کے سوٹ کے بدلے لاکھوں کی دعائیں مل جائیں۔
ویسے بھی اگر امیر طبقہ اپنی غیر استعمال شدہ چیزیں صرف بیچنے کی جانب راغب ہو گیا تو غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو گا۔ اکثر فیس بک کے پیچز پر تو امپورٹڈ یا برانڈڈ کپڑوں کے علاوہ بےحد عام کپڑے بھی 200 سے 1000 روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ جبکہ اگر امپورٹڈ کپڑوں کی بات کی جائے تو ان کی قیمت مزید 1500 سے 3500 تک جاتی ہے۔
گزشتہ دو تین سالوں سے صورتحال یہ ہے کہ اتوار بازاروں اور لنڈے میں بھی سردیوں کے ملبوسات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ایک طرف تو غریب طبقہ امیروں کی جانب سے ملنے والے پرانے اچھے کپڑوں سے محروم ہو رہا ہے دوسری جانب خریدنا بھی مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ پیسے کی گردش ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو جائے تو اس طرح کی صورتحال میں چوری چکاری ، نفرت، عدم برداشت کا کلچر فروغ پانے لگتا ہے۔ احساس، انسانیت اور صلہ رحمی معاشرے سے ختم ہونے لگتی ہے۔
ایک دوسرے کا احساس کرنا معاشرے میں بہت مثبت اثر ڈالتا ہے۔ احساس کرنے سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ ان حالات میں جب معاشی بدحالی ہے تو قوم کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ اور چھوٹے چھوٹے سے ایسے اقدامات کرنے سے جن سے کسی کی مدد ہو سکے ان کو سراہنا اور غلط اقدامات پر آواز اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔