روم میں ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر دوسرے اہم مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں، جنہیں مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ مذاکرات عمان کے شہر مسقط میں ہونے والے ابتدائی دور کے ایک ہفتے بعد ہوئے۔ اگرچہ یہ بات چیت اٹلی میں ہو رہی تھی، لیکن عمان ایک بار پھر ثالثی کے کردار میں تھا۔
سی این این کے مطابق،ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ عراقچی کے مطابق مذاکرات تقریباً چار گھنٹے جاری رہے اور کئی نکات پر بہتر افہام و تفہیم اور اصولوں پر اتفاق رائے حاصل ہوا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کا تیسرا دور متوقع ہے۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات عشروں سے کشیدہ ہیں، خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام پر۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی بند کرے جبکہ ایران اس پر اپنے حق پر قائم ہے، تاہم وہ کچھ رعایتوں کے بدلے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے۔
مذاکرات کے دوران فریقین کا براہِ راست رابطہ نہیں تھا، بلکہ عمان کے وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسیدی نے دونوں وفود کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری تنصیبات پر فوری حملے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ترجیح سفارتی حل ہے، لیکن دوسرا راستہ ایران کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
مذاکرات سے قبل وٹکوف نے پیرس میں اسرائیلی حکام سے ملاقات کی، جبکہ ایران کے وزیر خارجہ نے روس کا دورہ کرتے ہوئے صدر پیوٹن اور وزیر خارجہ لاوروف سے ملاقات کی۔ روس سے توقع ہے کہ وہ نئے معاہدے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔
ادھر اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ یہ بات چیت نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور وقت کم ہے۔
ادھر سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے تہران کا دورہ کیا جو دہائیوں میں کسی سعودی عہدیدار کا سب سے