اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کے صدر فرحت اللہ بابر اور سیکر ٹری ملائیکہ رضا نے جمعہ کے روز م اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پانی زندگی کے ساتھ مشروط ہے۔ پختون خواہ، سندھ اور بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی کا سنگین مسلہ درپیش ہے۔
دریائے سندھ کے نظام کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا۔گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز تر ہو رہی ہے۔دریائے سندھ کے نظام کا انحصار اسی ہمالیہ اور ہندوکش پر ہے۔ دریائے سندھ خطرے سے دوچار ہے۔جبکہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1947 میں پاکستان کے ہر شخص کو پانچ ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔جبکہ آج ایک ہزار مکعب میٹر پانی فی کس دستیاب ہے۔
انہوں نے کہا پنجاب میں 6 نہریں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان نہروں کا سندھ اور پنجاب پرمنفی اثر ہو گا۔1991 میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولہ ترتیب کیا گیا تھا۔اگر پنجاب کے پانی سے 6 نہریں چلائی جارہی ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔یہ کیوں نہیں بتا رہے کہ 6 نہروں کے لیے پانی کہاں سے لیا جائے گا۔ارسا میں پانچوں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔جبکہ ارسا کی طرف سےنہروں کی تعمیر کے لیے دی گئی اجازت بھی غیر قانونی ہے۔اجازت دیتے وقت کیونکہ ارسا کا مرکز کا رکن سندھ سے نہیں تھا جو کہ غیر قانونی ہے۔
فرحت اللہ بابرنے کہا یہ صوبوں کے مابین تنازع نہیں ہے بلکہ یہ مرعات یافتہ طبقہ کی کاگزاری ہے جو کہ تنازع پیدا کر کے صوبائی لڑائی کا تاثر دے رہے ہیں۔
پنجاب میں ایک ملین ایکڑ زمین کی کاشت کے لیے سندھ کی تیرہ ملین ایکڑ زمین کو بنجر کیا جا رہا ہے۔چند مخصوص لوگوں کی زمینیں سیراب کر رہے ہیں۔کارپوریٹ فارمنگ مین غریبوں سے زمین چھینی جاتی ہے۔ان کو دی نہیں جاتی۔
سابق سینیٹر نے مزید کہا کہ نہروں کی تعمیر کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھیجا جائے۔اور ملک میں قحط سالی کی ایمرجنسی لگائی جائے۔