پنجاب سرکاری سکولوں کے طالب علم غذائی دہشت گردی کی زد میں ہیں:ماہرین صحت

اسلام آباد:12 سے زائد صحت عامہ سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت شوگری مشروبات اور مضر صحت غذا بنانے والی انڈسٹری کے زیر اثر اقدامات لے رہی ہے۔جس کے نتیجے میں پنجاب کے سرکاری سکولوں کے طالب علم غذائی دہشت گردی کا شکار ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے حکومت کارپوریٹ مفادات کی بجائے صحتِ عامہ کے تحفظ کو ترجیع دے۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں نے جمعہ کے روز اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔
جس میں کہا گیا کہ صحت عامہ کی پالیسیوں پر انڈسٹری کے اثر کو ختم کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

سول سوسائٹیز اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ڈبہ بند غذائی مصنوعات کے مضر اثرات کے بارے میں بہت زیادہ شواہد کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ڈبہ بند غذا تیار کرنے والی انڈسٹری سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر بچوں کی غذائیت میں حصہ لے رہی ہیں جس سے اُن کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر بھی ہو رہی ہے۔

مقررین نے کہا نیسلے پاکستان نے حال ہی میں اہم سرکاری اداروں بشمول پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، فوڈ اتھارٹیز اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ساتھ اجلاس منعقد کیئے۔یہ ایجنسیاں صحت سے متعلق پالیسیاں بنانے کی ذمہ دار ہیں، جن کے ساتھ نیسلے کی مصروفیت فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت اور ممکنہ غیر ضروری اثر و رسوخ کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔

اس سے پہلے پنجاب نیوٹریش بورڈ میں نیسلے اور ڈیری کمپنی کا شامل ہونا پھر پلاننگ کمیشن میں وفاقی سطح پر ایک پالیسی بورڈ قائم ہوا وہاں بھی انڈسٹری بورڈ کا حصہ بنی۔ حال ہی میں کوکا کولا نے اپنی برانڈنگ کے ساتھ اسکولوں میں لنچ باکس تقسیم کیے ہیں جو کہ بچوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی واضح کوشش ہے۔ مفادات کے ٹکراؤ کے طور پر بچوں کی غذائیت کے اقدامات میں صنعت کی شمولیت اور جس میں مشروبات کی کمپنیوں کو صحت عامہ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت دینے کے خطرات کو جنم دیتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی ایک قانون منظور کر چکی ہے جس میں کسی بھی بیورج کمپنی کو اپنے مشروبات سکولوں میں اور اس کے 100میٹر کے دائرے میں فروخت اور تشہیر پر پابندی ہے۔ ایسے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کا کوکا کولا کے ساتھ معائدہ کرنا جس میں وہ اپنے لوگو کے ساتھ خوراک تقسیم کر کے اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کر رہی ہیں نہ صرف بچوں کی صحت کے ساتھ ایک کھلواڑ ہے بلکہ ضوابط کی واضع خلاف ورزی ہے۔

پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے صدرمیجر جنرل (ر)مسعود الرحمان کیانی کی جانب سے منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس میں منور حسین ٹکنیکل ایڈواذر پناہ، ہارٹ پاور کی نمائدہ ڈاکٹر صبا، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس کی نمائندہ اریبہ شاہد، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹوز سے مختار احمد، پاکستان ذیابیطس ایسوسی ایشن ے پرو فیسر ڈاکٹر عبد الباسط، رابعہ انور پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹک سوسائٹی، سکوردن لیڈر (ر) غلام عباس پاکستان کڈنی پیشنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن، ڈاکٹر خالد رندھاوا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ، ڈاکٹر مظہر پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشیز ، ڈاکٹر کرنل (ر) گلا آف پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن، یوتھ پارلیمنٹ پاکستان، نمائندہ پاکستان چیسٹ سوسائٹی، نمائندہ دی کینسر فاؤنڈیشن، کوثر عباس سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ، رو مینہ اقبال آرگنائزیشن نیوٹریشن فاوٗنڈیشن پاکستان، رو مینہ اقبال آغا خان یونیورسٹی، تحسن فواد نیشنل ڈیویلمنٹ آرگنائزیشن،اور دیگر صحت عامہ کے ماہرین نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا غور طلب بات یہ ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی ایک قانون منظور کر چکی ہے جس میں کسی بھی شوگری مشروب بنانے والی کمپنی کو اپنے مشروبات سکولوں میں اور اس کے 100میٹر کے دائرے میں فروخت اور تشہیر پر پابندی ہے۔ ایسے میں کوکا کولا کے ساتھ معائدہ کرنا جس میں وہ اپنے لوگو کے ساتھ فوڈ باکس تقسیم کر رہے ہیں نہ صرف بچوں کی صحت کے ساتھ ایک کھلواڑ ہے بلکہ کنفلٹ آف انٹرسٹ کی واضع خلاف ورزی ہے الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کی بڑھتی ہوئی کھپت ملک گیر صحت کے بحران کو ہوا دے رہی ہے۔ حکومت کو ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے عوام کی صحت متاثر ہو رہی ہو۔

مقررین نے کہا کہ آج پاکستان میں صحت پر کام کرنے والی تمام بڑی تنظیمیں، سول سوسائٹی کے نمائندے اور صحت کے مائرین مل کر حکومت سے یہ مطالبہ کرنے آئے ہیں کہ پاکستان میں غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے ہمیں واضع لائن منصوبہ سازی کی جائے۔ جس میں ایسے لوگوں کی شمولیت نہیں ہونی چاہیے جن کا مفاد انڈسٹری کے ساتھ شامل ہو۔ پالیسی سازی میں صرف اور صرف عوامی صحت کو ترجیع دی جائے اور موجودہ اقدامات کو واپس لیا جائے

اپنا تبصرہ لکھیں