مالی سال 25-2024 بجٹ کی تیاری کے موقع پر اسلام آباد میں کچھ نادیدہ عناصر اور چند غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملکی سگریٹ کی صنعت پر ٹیکس میں اضافے کے لیے مطالبات سامنے آئے تھے۔سی این این اردو نے ان تمام غیر سرکاری تنظیموں کی سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کے مطالبات کے لیے منعقدہ تقریبات کو من و عن شائع کیا تھا۔تاہم اپنے قارئین کی آگاہی کے لیے اس مہم کی آڑ میں سگریٹ کی صنعت کو کو نشانہ بناکر ملکی معیشت کو دباو میں لانے کی سازش کے امکانات کی بھی نشان دہی کی تھی۔سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے نادیدہ عناصر یا غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے اس مہم کے زریعے معیشت کو دباو میں لانے کے ہمارے خدشات کا مثبت طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری طرف سے ملکی معیشت کے خلاف جاری ان سرگرمیوں کی نشاندہی بلاجواز ہر گز نہیں تھی۔
اب دوسرے مرحلے میں ان ہی نادیدہ عناصر اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے سگریٹ کی برآمدات روکنے کے لیے چھوٹے سگریٹ پیک کی تیاری روکنے کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔ان غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سگریٹ ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کو بیرون ملک برآمد کرنے کے لیے 10 سگریٹ پر مشتمل چھوٹے پیک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کو خدشہ ہے کہ 10 سگریٹ کا چھوٹا پیک خریدار ملک سوڈان کو برآمد کرنے کی بجائے اندرون ملک فروخت کے لیے دستاب ہو جائے گا۔جس کے نتیجے میں بچوں کے لیے سگریٹ خریدنا اور رکھنا آسان ہو جائے گا۔یعنی اس کے نتیجے میں بچوں میں سگریٹ نوشی کے فروغ کا امکان ہے۔بغور تجزیہ کرنے پر سمجھنا آسان ہے کہ مقامی سگریٹ کی صنعت کے ان مخالفین کے دعوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اول تو برآمد کرنے کے لیے بنائی جانے والی سگریٹ کا ملکی مارکیٹ میں فروخت کا کوئی امکان نہیں ہے۔پھر بھی خدشہ برقرار ہو تو اس مقامی سگریٹ کا بچوں تک پہنچنا ناممکن ہے۔ملک بھر میں ہر جگہ خوبصورت پیکنگ میں سمگل شدہ باریک سگریٹ دستاب ہیں۔ان سمگل شدہ سگریٹ کے پیک دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر کسی قسم کی تنبیع(وارننگ) بھی درج نہیں ہے۔جبکہ یہ سمگل شدہ باریک سگریٹ مختلف ذائقوں میں دستیاب ہیں۔جتنے سائز کے پیک میں مقامی سطح پر قانونی طور پر تیار ہونے والی 10 سگریٹ کا پیک بنانا ممکن ہے اتنے ہی سائز کے پیک میں سمگل شدہ باریک سگریٹ کی تعداد 20 سے بھی زائد ہوتی ہے۔ان سمگل شدہ باریک سگریٹ کی قیمت مقامی سگریٹ کا مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔اب ہمارے بچے صرف بچے ہیں بیوقوف ہر گز نہیں ہیں کہ اس سب کے باوجود مقامی سگریث خریدیں گے۔
حقائق کا جائزہ لیں تو ان عناصر کی مہم کا یہ دوسرا مرحلہ بھی برآمدات کو روک کر ملکی معیشت کو نشانہ بناتا ہوا نظر آتا ہے۔مالی سال 24-2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی سگریٹ کی صنعت نے حکومت کو 800 ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے زرائع کے مطابق صرف وفاقی دارلحکومت میں فروخت ہونے والی سگریٹ کا 35فیصد سمگل شدہ سگریٹ پر مشتمل ہے۔جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں فروخت ہونے والی سگریٹ کا 50 فیصد سے زائد سمگل شدہ سگریٹ پر مشتمل ہو سکتا ہے۔جبکہ سرحدوں کے قریب کے اضلاع میں سمگل شدہ سگریٹ کی فروخت کا تناسب مارکیٹ کے 90 فیصد سے بھی زائد ہے۔ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ سگریٹ کی سمگلنگ کے زریعے ہر سال قومی خزانے کو 800 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔سگریٹ کی سمگلگ کے زریعے سینکڑوں ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کرنے والے یہی وہ عناصر ہو سکتے ہیں جو ملکی قوانین کی تابع اور ملک کو سینکڑوں ارب کے ٹیکس ادا کرنے والی سگریٹ کی صنعت کو دباو میں لانا چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سگریٹ کی قانونی اور ٹیکس ادا کرنے والی صنعت کو نشانہ بنانے والی ان سب این جی اوز سپارک، کرومیٹک، ہیومن ڈیویلپمنٹ فاونڈیشن اور دیگر کو پاکستان میں کام کرنے کے لیے لائسنس یا اجازت نامہ ضرور دیا گیاہے۔تاہم ان کو پاکستان میں سوڈان کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر گز اجازت نہیں دی گئی۔ملک میں رفاعی کام کرنےکے لیے کسی غیر سرکاری تنظیم کی رجسٹریشن سے قبل خفیہ اداروں سے این او سی حاصل کیا جاتا ہے۔مگر رجسٹریشن کے بعد ان غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی ان ہی اداروں کا فرض ہے۔ملکی معیشت کے خلاف سرگرمیاں بھی دراصل ملکی سلامتی کے مخالف ہوتی ہیں۔ این جی اوز کی رجسٹریشن سے قبل این او سی جاری کرنے والے اداروں کی طرف سے ان غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اور ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں کے ثبوت ملنے پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔