وطن عزیز اور ہماری اقلیتیں

تحریر:ڈاکٹر قیصر شہزاد
14 اگست کے دن کی کسی بھی پاکستانی کے لئے اہمیت، عزت اور عظمت اظہر من الشمس ہے۔ کون نہیں جانتا۔ نہ صرف پاکستان کا بچہ بچہ بلکہ دنیا کا ہر ذی شعور اور باخبر شخص یہ جانتا ہے کہ 14 اگست کے اس یادگار دن برصغیر پاک و ہند کے عظیم لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں اسلامیان ہند نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد اسلامی ریاست ” پاکستان ” کو وجود اور شناخت عطا کی تھی۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی اور اقلیت میں مسیحی، ہندو اور دیگر مذاہبِ کے ماننے والے ہیں۔ پاکستان میں مسیحیوں اور مسلمانوں کا چند چیزوں کے علاوہ مرنا جینا، رہن سہن، دکھ سکھ بلکہ سب کچھ ایک جیسا ہی ہے۔ ملک پاکستان کو بنانے کے لئے مسیحیوں کا بہت اہم کردار ہے۔ جسے تاریخ نے کبھی نہیں بھلایا اور نہ ہی جھٹلایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں ہی مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں نے بخوشی مسلمانوں کے ساتھ رہنا قبول کیا تھا کیونکہ قائد اعظم نے اپنا تقاریر میں مسیحیوں کو یقین دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمیں اقلیتوں پر اپنے قول و فعل سے ثابت کرنا ہے کہ جب تک وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے وفاداری سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرتی رہیں گے انہیں کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ انہوں نے مزید فرمایا تھا کہ میرا عقیدہ ہے کہ کوئی حکومت اقلیتوں میں اعتماد کا احساس پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر کسی حکومت کی پالیسیوں اور پروگرام میں اقلیتوں سے غیر منصفانہ رویہ ہو گا تو وہ حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کسی نمائندہ حکومت کی کامیابی کی بہترین کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتیں محسوس کریں کہ ان کے ساتھ حق اور انصاف کے ساتھ پیش آیا جا رہا ہے۔ قائد اعظم کی اس تقریر کو سن کر مسیحیوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور ہمیشہ مسلم لیگ اور قائد اعظم کا ہر موڑ پر ساتھ دینے کا عہد کیا تھا۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں اقلیتی ممبران کی کل تعداد چار تھی۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر جناب ایس پی سنگھا صاحب نے قائد اعظم کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور پھر جب جون 1947 کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا تو تین مسیحی ممبران نے 88 مسلم لیگی ممبران کے ساتھ مل کر پنجاب کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ اس طرح جب پاکستان اور ہندوستان کے ووٹ 88 – 88 برابر تھے تو ان تین ووٹوں کی وجہ سے پنجاب کے حق میں 19 ووٹ پڑے۔ یوں نہ صرف پنجاب کی تقسیم ہوئی مسیحیوں نے نہ صرف 1947 میں اہم اپنا کردار نبھایا۔ بلکہ 1965 کی جنگ میں بھی پاکستان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کیا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بعدازاں بہت سارے مسیحیوں کو ستارہ جرات عطاء ہوا۔ جس میں سیسل چوہدری سرفہرست تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھی مسیحیوں نے ہمیشہ نمایاں خدمات انجام
دی ہیں۔ تعلیمی میدان اور علاج و معالجہ کے شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جسے ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے، ریکارڈ گواہ ہے کہ مسیحی سکولوں نے پاکستان کی بہت ساری نامور شخصیات کو تعلیمی لحاظ سے جنم دیا۔ جن میں خود قائد اعظم، علامہ اقبال، جنرل ضیاء الحق، یحییٰ خان، صدر محمد اسحاق خان، میاں محمد نواز شریف شامل ہیں، مسیحیوں نے کثیر تعداد میں ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو بھی قائم کیا۔ القصہ ہر شعبہ زندگی اور ہر مکتبہ فکر میں پاکستانی اقلیتوں کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اکثریتی آبادیوں کا۔ آئیں ہم سب مل کر اس ملک میں اتحاد و یگانگت اور وحدت ملی کے ساتھ محبت اور اخوت کے رشتوں میں بندھ کر رہنے کا عہد کریں اور اس ملک کے خالص باشندے ہونے کے ناطے دعا کریں کہ تعلیم، صحت اور فلاح وبہبود کے ان مشنری اداروں کی توسیع اور تعمیر کے لئے پہلے سے زیادہ محنت، لگن اور خلوص سے کام کریں گے جو آج ملک پاکستان کی خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آج یہ بھی مل کر دعا کریں ان اعلیٰ حکومتوں کے لئے جو ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں کہ خدا ان کو خالص جذبہ حب الوطنی اور ہدایت عطاء فرمائے کہ وہ ملک و قوم کے لئے کام کریں نہ کہ اپنی ذاتی دولت میں اضافے کے لئے۔)آمین

اپنا تبصرہ لکھیں