غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 20 سگریٹ سے کم کا پیک پاکستان اوربرآمد کردہ ممالک میں صحت عامہ کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔بدھ کے روز اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم سپارک کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں غیر سرکاری تنظیموں نے سگریٹ سازی کی صنعت پر شدید تنقید کی۔مقررین کا کہنا تھا کہ ملکی سگریٹ سازی کی صنعت پاکستان کے تمباکو کنٹرول کے ضوابط کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں سپارک، کرومیٹک، چائلڈ رائیٹس موومنٹ , عورت فاونڈیشن اور دیگر کے نمائندوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سگریٹ سازی کی صنعت پر الزام عائد کیا کہ سگریٹ ساز کمپنیاں برآمد کے لیے 10 سگریٹ پر مشتمل پیک تیار کرنے کی اجازت حاصل کر رہے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم سپارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آسیہ عارف نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی صحت عامہ کے شدید بحران سے دوچار ہے۔10 اسٹک پیک کی اجازت دینے سے معاشی بوجھ 50 ارب روپے سالانہ تک پہنچ جائیگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ یہ پیک اگرچہ برآمد کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن بالآخر یہ مقامی مارکیٹ میں بھی فروخت کئے جانے ہیں اور اس سے پاکستان کے تمباکو کنٹرول کے ضوابط کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوۓ عورت فاونڈیشن کی پروگرام آفیسرمہک فاطمہ نے تمباکو کے استعمال میں کمی کے حوالے سے کہا کہ عورت فاونڈیشن سی۔ٹی۔ایف۔کے ساتھ اشتراک سے ماؤں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔اس ضمن میں چاروں صوبوں سے ماؤں کے گروپ نے سیکرٹری ہیلتھ کے نام خطوط ارسال کیے ہیں۔
مہک فاطمہ نے کہا کہ عورت فاوندیشن، اراکین پارلیمنٹ کے زریعہ تمباکو کی روک تھام پر کام کر رہی ہے۔جس کے لیے خاتون رکن قومی اسمبلی نے عورت فاونڈیشن اور سی۔ٹی۔ایف۔ کو دعوت دی ہے کہ عورت فاونڈیشن پارلیمنٹ ہاوس میں اراکین پارلیمنٹ کو آگاہی بریفنگ دیں تاکہ قانون سازی میں تجاویز کو شامل کیاجاسکے۔
چائیلڈ راییٹس موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی سگریٹ ساز کمپنیاں ڈرگ مافیا ہیں۔ان میں سے ایک برٹش امریکن ٹوبیکو کمپنی نے حکومت سے 10 سگریٹ کا پیک تیار کرنے کی اجازت مانگی ہے۔
انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کی ڈاکٹر مدیحہ صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قانون پہلے ڈبلیو ایچ او ایف سی ٹی سی کے ساتھ منسلک تھا جس میں 20 سے کم سگریٹ کے پیکٹوں پر مشتمل سگریٹ کے پیکٹوں کی تیاری، فروخت اور درآمد پر پابندی تھی تاہم سوڈان کو برآمد کرنے کے لیے کڈی پیک کی تیاری کی اجازت دیناجو کہ کنونشن کا رکن بھی ہے ڈبلیو ایچ او ایف سی ٹی سی کی ذمہ داریوں سے بغاوت ہے۔
غیر سرکاری تنظیم سپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہاکہ تمباکو کی صنعت 10 سگریٹ کا پیکٹ متعارف کراکے نوجوانوں کو اپنے زیر اثر لانا چاہتی ہے اور یہ حکمت عملی صرف اپنی مارکیٹ کو بڑھانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایسے افرادکو اورنواجوانوں کو نشانہ بنایاجائیگا جو بڑاپیکٹ نہیں خریدسکتے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کو سگریٹ ساز کمپنیوں کے ان ہتھکنڈوں اور ان سے صحت عامہ اور معیشت دونوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ بچوں خواتین اور دیگر انسانی حقوق پر کام کرنے والی مذکورہ بالا تمام غیر سرکاری تنظیمیں اس سے قبل طویل عرصے تک پاکستان میں قانونی طور پر بنائے جانے والے اور فروخت ہونے والے سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کرنے کے لیے مطالبات کرتی رہی ہیں۔