مونال خطرے میں ہے

، ۔۔۔۔۔۔
دوست، بھائی چوہدری اورنگزیب عنایت اللہ نے دو روز قبل مجھے فیملی سمیت مارگلہ ہلز کے ٹاپ پر واقع مونال ریسٹورنٹ پر ڈنر کے لیے مدعو کر رکھا تھا جونہی مینجر نے کھانے کی ٹیبل پر کھانوں کی سلیکشن کے لیے Manu رکھا تو چوہدری اورنگزیب کے پوتے اور پوتیوں نے جو چند دن پہلے ہی دادا، دادی کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے فرانس سے پاکستان آئے ہیں نے Manu کے فرنٹ پر چھپی خوبصورت پرندے کی تصویر سے اس کے بارے میں جاننے کے لیے قطار در قطار سوالات کی بوچھاڑ کردی ، یہ حسین و جمیل پرندہ کون سا ہے؟ کیا ہم نے دیکھا ہے؟ یہ مور ہے؟ اڑتا ہے؟ گھر کیسے بناتا ہے ،کھاتا کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
مینیو کے سر ورق پر چھپا یہ حسین و جمیل پرندہ ” مونال ” تھا اور اسی پرندے کی نسبت سے اس ریسٹورنٹ کا نام مونال رکھا گیا ہے ، اب بچوں کے ساتھ ساتھ دونوں فیملیز بھی مونال ریسٹورنٹ کے پکوانوں کی بجائے اس خوبصورت پرندے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں دلچسپی رکھتی تھیں ،
آپ بھی جانئیے ۔۔۔۔۔۔
مونال مور کی نسل کا دلکش رنگوں والا ایک انتہائی خوبصورت نایاب جنگلی پرندہ ہے جس کا مسکن گھنے جنگلات ہیں۔
مونال جس کو ہمالیائی مونال یا امپیانی سرخاب بھی کہا جاتا ہے سرخاب کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک رنگ برنگا پرندہ ہے ۔ اس خوبصورت پرندے کو مونال کا نام اس وقت کے بنگال کے جج سر علیجاہ ایمپے کی بیگم میری ایمپے کی مناسبت سے دیا گیا ہے جو خود بھی انتہائی حسین و جمیل تھی ۔ یہ پرندہ ہمالیہ کے دامن میں پاکستان، بھارت، نیپال، بھوٹان اور چین میں پایا جاتا ہے۔ اس کو فارسی میں کاکل پری کہتے ہیں۔ یہ نیپال کا قومی پرندہ ہے اور اس کو وہاں دانپھے کے نام سے بلایا جاتا ہے۔ یہ سخت سردی کا موسم بھی باآسانی برداشت کرلیتا ہے۔ اس کی خوراک درختوں اور پودوں کی جڑیں ہیں۔ پاکستان میں یہ خیبر پختونخواہ، ہری پور ہزارہ، چترال، کاغان،ناران اور آزاد کشمیر کے گھنے جنگلوں میں ملتا ہے، جنگلوں میں انسانی سرگرمیوں اور ظالمانہ شکار سے مونال کی تعداد میں بہت حد تک کمی آئی ہے حالانکہ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت اس پرندے کا شکار جرم ہے۔
یہ چمکدار رنگوں کا حامل حسین پرندہ شمالی پاکستان کے ہمالیائی سلسلے سے تعلق رکھنے والے خطوں میں پایا جاتا ہے- یہ اپنے جسم پر موجود ان گنت چمکدار رنگوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے تمام پرندوں میں ایک نمایاں حیثیت بھی حاصل ہے۔ اسے نیپال کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جہاں اسے “ڈینفے” کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر میں اسے “لینٹھ” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سائنسی نام برطانوی دور کے بنگال کے چیف جسٹس الیجا امپے کی بیوی بیگم میری امپے کے نام پر رکھا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناخت اور خصوصیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونال ایک بڑی جسامت کا پرندہ ہے جس کی بڑی سی چونچ اور چھوٹی ٹانگیں ہوتی ہیں۔ ان کی جسامت 68 سے 73 سنٹی میٹر جبکہ دم کی لمبائی 21 سے 23 سنٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ نر کا گلا، چھاتی اور پیٹ گہرے کالے رنگ جبکہ پر نیلے مائل جامنی یا نیلے مائل سبز ہوتے ہیں جن میں مخصوص چمک پائی جاتی ہے۔ چونچ آگے سے مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ سر پر تاج بھی پایا جاتا ہے۔ مادہ کا رنگ بھورا ہوتا ہے جس میں کالے رنگ کی آمیزش ہوتی ہے۔ مادہ کے گلے پر ایک سفید نمایاں دھبہ اور دم پر ایک سفید دھاری ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہائش گاہیں اور پھیلائو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونال آپ کو پاکستان میں چترال، دیر، سوات، ہزارہ، آزاد کشمیر، پالس ویلی اور گلگت میں مل سکتا ہے۔ پاکستان سے باہر مونال افغانستان، بھارت، نیپال، سطع مرتفع تبت اور بھوٹان میں پایا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر کونیفرز کے ان جنگلات میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں وسیع گھاس کے علاقے بھی موجود ہوں۔ یہ سطح سمندر سے 2100 سے 4500 میٹر بلند علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ برف میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور برف کو کھود کر نیچے دبے ہوئے پودوں کی جڑیں اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برتائو
۔۔۔۔۔۔۔
مونال پودوں کی جڑیں، سبز شاخیں، بیج، حشرات اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ باقی مرغ زریں کی طرح مونال بھی رات کو درختوں پر آرام کرتے ہیں۔ ان کا بریڈنگ کا موسم اپریل سے اگست تک ہوتا ہے جس میں یہ جوڑے بناتے ہیں۔ یہ 12 سے 24 مہینے کی عمر میں جنسی بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ جھاڑیوں میں گھونسلہ بناتے ہیں۔ مادائیں 2 سے پانچ انڈے دیتی ہیں جن پر بھورے دھبے ہوتے ہیں۔ انڈوں سے 28 دنوں میں چوزے نکل آتے ہیں۔ بچے 6 مہینے بعد مکمل طور پر خود پر انحصار کے قابل ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ علاقوں میں مونال کو انسانی مداخلتوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جن علاقوں میں انسانی سرگرمیاں بڑھ جائیں وہاں سے مونال ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں ریاست ہماچل پردیش میں 1982 تک مونال کو اس کے تاج والے پروں کی وجہ سے بہت زیادہ شکار کیا جاتا رہا جس کے بعد ان کے شکار پر پابندی لگائی گئی۔ ان کے پروں کا استعمال مردانہ ٹوپیوں میں کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں بھی مونال کو شدید خطرات ہیں اور اس کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں