جنوبی کوریا نے امریکی محصولات کے خلاف چین جیسے اقدامات سے اجتناب کا فیصلہ کر لیا

جنوبی کوریا نے امریکی تجارتی پالیسیوں کے خلاف چین جیسے جارحانہ اقدامات سے گریز کرتے ہوئے، معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عبوری صدر ہان ڈک سو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت امریکہ کی جانب سے لگائے گئے 25 فیصد درآمدی محصولات کے خلاف اتحاد بنانے کے بجائے براہ راست مذاکرات کو ترجیح دے گی۔

یہ محصولات ایکسپورٹ پر مبنی معیشت رکھنے والے جنوبی کوریا کے لیے شدید دھچکا ثابت ہو سکتے ہیں، جو دنیا بھر میں سام سنگ، ایل جی اور ہنڈائی جیسے معروف برانڈز کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس اقدام سے امریکی صارفین کے لیے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی متوقع ہے۔

صدر ہان نے دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی کوریا امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ اتحاد کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم چین یا جاپان کے ساتھ مل کر مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ یہ طرزِ عمل مؤثر ثابت نہیں ہوگا۔”

یہ مؤقف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین امریکی تجارتی پالیسیوں پر شدید تنقید کر رہا ہے اور انہیں مسلسل غلطی قرار دے رہا ہے۔ اس کے برعکس، جنوبی کوریا مسئلے کا حل مذاکرات میں دیکھتا ہے۔

ہان، جو حال ہی میں عبوری صدر بنے ہیں، ایک تجربہ کار معیشت دان اور سفارت کار ہیں۔ وہ ماضی میں امریکہ میں جنوبی کوریا کے سفیر بھی رہ چکے ہیں اور امریکہ-کوریا فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔

نئے امریکی محصولات، جو اسٹیل، ایلومینیم، آٹو پارٹس اور دیگر اشیاء پر لاگو ہوئے ہیں، جنوبی کوریا کی برآمدات کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ان اقدامات کے باعث جنوبی کوریا کی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر جب ملک انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

ہان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تمام مسائل فوری حل نہیں ہوں گے، مگر انھیں امید ہے کہ دونوں ممالک کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے قبل اس کے کہ فیکٹریوں کو بند کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا، “ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ دیکھنا ہوگا کہ 25 فیصد محصول کا ہمارے لیے کیا مطلب ہے، اور پھر اسی انداز سے امریکہ سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔”

ہان نے اس بحران کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے 1930 کی دہائی کی عالمی تجارتی جنگ کی مثال دی، جب امریکہ کی جانب سے لگائے گئے محصولات نے عالمی کساد بازاری کو جنم دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا، “اکیلا کوئی ملک کام کرے تو حالات بہتر نہیں ہوتے۔ ہمیں مل کر بات چیت کرنی چاہیے اور مشترکہ فائدے کی راہ نکالنی چاہیے۔”

دنیا بھر میں امریکی محصولات کے اثرات پر تشویش پائی جا رہی ہے۔ سنگاپور جیسے ممالک نے اسے عالمی تجارتی نظام میں بڑی تبدیلی قرار دیا ہے، تاہم ہان کا مؤقف ہے کہ “عالمگیریت ختم نہیں ہو رہی، اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔”

امریکہ جنوبی کوریا کا چھٹا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور 2024 میں دو طرفہ تجارت کا حجم 197 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم، نئی تجارتی پالیسیوں سے اس توازن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں