ملک بھر کی انڈسٹری کی قربانی دے کڑ فاٹا اور پاٹا کو آباد کرنے کی حکمت عملی درست نہیں ہے۔فاٹا اور پاٹا کی انڈسٹری کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے نتیجے میں ملک بھر کی انڈسٹری بربادی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ سوموار کے روز اسلام آباد میں گھی ملز ایسو ایسشن، سٹیل ملز ایسوسی ایشن، لارج سٹیل ملز، سٹیل پائپ ملز کے عہدے داوروں اور متعدد ملز مالکان نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئےکہاصنعت کاروں نے کہا اگر فاٹا اور پاٹا کے عوام کو ریلف دینا ہے تو ان کے گھروں کےبجلی کے بل معاف کر دیں۔یا کشمیر کی طرز پر سستا آٹا فراہم کریں۔حکومت فاٹا اور پاٹا میں صنعتوں کو ترقی دینے کی خواہاں ہے تو وہاں موجود معدنیات سے تیار ہونے والی پراڈکٹس کی صنعتیں قائم کرے۔بیرون ملک سے برآمد کردہ خام مال پر فاٹا اور پاٹا میں انڈسٹری لگانا بذات خود بد نیتی پر مشتمل پالیسی ہے
انڈسٹری مالکان نے کہا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافےکے دعوے کرنے والے مقامی سرمایہ کاری کو برباد کر رہے ہیں۔حکومت مقامی انڈسٹری کو فروغ دے۔پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز فلیٹ اسٹیل، گول اسٹیل،لانگ اسٹیل اور کوکنگ آئل اینڈ گھی انڈسٹری نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر فاٹا پاٹا میں واقع صنعتوں کو ٹیکس استثنیٰ میں توسیع دی گئی تو صنعت کو مستقل طور پر بند کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا گزشتہ 6 سالوں کے دوران چھوٹ کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال نے اسٹیل، گھی کی صنعت کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری صنعتوں کو تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کو سیکڑوں اربوں روپے کا ریونیو نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے۔
صنعتوں کے نمائندوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس غیر منصفانہ ٹیکس چھوٹ کے سلسلے کو بڑھا کر ملک کے باقی حصوں میں صنعتوں کی تباہی نہ کرے۔پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز، پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ، پاکستان اسٹیل لائن پائپ انڈسٹری ایسوسی ایشن، عائشہ اسٹیل ملز لمیٹڈ اور انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ کے نمائندوں نے حکومتی اقدام پر شدید تنقید کی۔
مقریرن نے کہا 2018 میں کے پی میں سابقہ فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے وقت، سابقہ فاٹا اور پاٹا میں صنعت کو 5 سال کے لیے ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی۔ جبکہ گزشتہ برس اس سہولت کو مزید ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ 30 جون 2024 تک مسلسل 6 برس اس سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی قوتوں کی مدد سے ٹیکس میں پھر سے چھوٹ و توسیع دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ صنعت کاروں نے کہا کہ فاٹا پاٹا ٹیکس استثنیٰ کی پالیسی دراصل طاقتور سیاسی عناصر کے ساتھ ان تجارتی اداروں کی حمایت شامل ہے۔جن کے پاس فاٹا پاٹا میں صنعتوں میں حصہ داریاں ہیں اور ان علاقوں میں اسٹیل اور گھی کے یونٹ ہیں۔یہ عناصر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے مزید توسیع کی وکالت کر رہے ہیں۔
ان صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے سے فاٹا اور پاٹا کے عام آدمی کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ مقامی صنعت کے نمائندوں نے کہا کہ اگر حکومت سیاسی دباؤ کے تحت فاٹا اور پاٹا ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کر کے ٹیکس چوری کرنے والے موقع پرستوں کو نوازنا چاہتی ہے تو بدقسمتی سے اس سے سٹیل، گھی اور دیگر منسلک صنعتیں مستقل طور پر بند ہو جائیں گی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری بھی ہو گی۔
صنعتوں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ فاٹا اور پاٹا کی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ کی تباہ کن پالیسی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔بہت ساری گھریلو اسٹیل اور گھی کی صنعت اور پنجاب اور کے پی میں واقع صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ حطار انڈسٹریل اسٹیٹ، حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ، گدون انڈسٹریل ایٹیٹ میں واقع خیبر پختونخوا کی 60 فیصد سے زائد انڈسٹری پہلے ہی بند ہوچکی ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں حطار، گدون اور حیات آباد میں اسٹیل کے متعدد یونٹس بند ہونے کا مشاہدہ کیا گیا جس میں گدون میں چین کی مقامی شراکت سے بننے والی کی سب سے بڑی اسٹیل مل بھی شامل تھی۔رشکئی اکنامک زون میں نجی شعبے کی پہلی سرمایہ کاری چین کے اسٹیل یونٹ کو اسی علاقے میں غیر منصفانہ ٹیکس چھوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدترین صورتحال کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ اسلام آباد، گوجرانوالہ اور لاہور کے کئی صنعتی یونٹس بھی بند ہو رہے ہیں۔
کمزور انتظامی کنٹرول کی وجہ سے، مجرموں نے ٹیکس مراعات کا فائدہ اٹھایا اور آباد علاقوں میں ٹیکس فری اشیاء فروخت کرکے قانون کا غلط استعمال کیا جو ٹیکس ادا کرنے والی صنعت کو متاثرکرتی ہے۔ اس چھوٹ کا اس قدر غلط استعمال کیا گیا کہ ہر سال ملک بھر کی انڈسٹری کو اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے۔
فاٹا اور پاٹا میں تیار ہونے والے اسٹیل اور گھی کا تقریباً 92 فیصد سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر ملک بھر کے دیگر علاقوں میں سمگل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فاٹا اور پاٹا میں واقع یونٹس کے نام پر ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر خام مال درآمد کیا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فاٹا اور پاٹا میں اسٹیل کی اصل کھپت پاکستان کا صرف 2% ہے، جب کہ فاٹا اورپاٹا کی سالانہ پیداوار اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
فاٹااور پاٹا کے لیے 40 سے 50 ہزار فی ٹن سٹیل کی ٹیکس چھوٹ مقامی سٹیل انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے قیمت میں تقریباً 25 فیصد فرق ہے۔ لاگت کے نمایاں فرق کے ساتھ ملک بھر کی صنعت ان سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔غیر ٹیکس والے علاقوں میں پیدا ہونے والی اشیا کو ملک کے ٹیکس ادا کرنے والے علاقوں میں سیلز ٹیکس لگائے بغیر فروخت کیا جاتا ہے۔
ملک بھر کی 98 فیصد مقامی صنعت کو تباہی فاٹا اور پاٹا کی غیر منصفانہ اور امتیازی پالیسی کی وجہ سے گزشتہ 6 سالوں میں مقامی صنعت مفلوج ہو چکی ہے۔ دراصل حکومت یہ ٹیکس مراعات ان ٹیکس فری فیکٹریوں کو ہتھیار کے طور پر فراہم کر رہی ہے تاکہ ٹیکس ادا کرنے والے یونٹوں کا خاتمہ ہو جائے۔ ٹیکس ادا کرنے والی صنعتوں علاقوناور ملک کے بھر سرمایہ کاروں کے ساتھ بہت بڑا المیہ ہے۔