صحت عامہ کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی نجی تنطیموں نے تمباکو کی مصنوعات پر مزید ٹیکسں کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔بدھ کے روز اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم سپارک نے ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن، عورت فاؤنڈیشن اور کرومیٹک ٹرسٹ کے اشتراک سے سیمینار کا انعقاد کیا
اس موقع پر تمباکو مصنوعات کو بچوں کی دسترس سے دور رکھنے کے لیے تجاویز بھی دی گئیں۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے تمباکو پر ٹیکس میں اضافے کو موثر طریقے سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔صحت عامہ کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ان غیر سرکاری تنظیموں نے وزیر خزانہ پاکستان کو لکھے گئے خط کے بارے میں زرائع ابلاغ کو بتایا۔
مقررین نے کہا کہ آنے والے وفاقی بجٹ میں تمباکو ٹیکس کو کم از کم 26 فیصد بڑھایا جائے۔پاکستان کو عمومی طور پر تمباکو کے استعمال میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ جس میں 32 ملین بالغ افراد شامل ہیں جو 15 سال سے زیادہ عمر کے ہیں اور جنہیں تمباکو کے صارفین سمجھا جاتا ہے۔
سگریٹ سے متعلق بیماریاں سالانہ 160,000 سے زیادہ جانیں لیتی ہیں، جو ملکی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہیں۔ البتہ، مالی سال 23-2022 میں سگریٹ ٹیکس ان اخراجات کا صرف 16 فیصد کا حصہ تھا، جو 2019 میں 19.5 فیصد سے کم ہے۔
ڈاکٹر خلیل احمد نے کہا کہ سگریٹ کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا ہے کہ وہ سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں یا صحت کے معلوم خطرات کے باوجود عادت کو جاری رکھتے ہیں۔سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کو موثر طریقے سے نافذ کیا جائے تاکہ اسکے استعمال کو روکا جاسکے۔
ملک عمران احمد نے کہا کہ بین الاقوامی صحت کی تنظیموں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کی تجویز کے مطابق تمباکو ٹیکس میں اضافہ ایک موثر اقدام ہوسکتا ہے۔تاکہ استعمال کم ہو اور صحت کیلئے اخراجات کی دستیابی جاری رہے۔ٹیکس میں اضافہ ایک اہم قدم معلوم ہوتا ہے۔نہ صرف یہ بہترین طریقے سے صحت پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ وصول کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ لاکھوں افراد کو سگریٹ پینے سے روکنے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔