مسلح افواج کے مشترکہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے اپنے جاری کردہ بیان میں بہاول نگر پیش آنے والے وقعہ کو افسوس ناک قرار دے دیا۔آئی ایس پی آر نے حل کرنے کے بعد انکوائری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
جمعہ کے روز جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں بہاولنگر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، واقعے کا فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری طور پر حل کیا گیا۔
اس کے باوجود مخصوص مقاصد کے حامل بعض دھڑوں نے ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کر دیا،منصفانہ انکوائری کو یقینی بنانے اور قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا تعین کرنے کے لیے سیکورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔
جبکہ پنجاب پولیس کی جانب سے گزشتہ رات جاری ہونے والے ایک بیان میں پولیس نے کہا تھا کہ اس واقعہ کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان لڑائی ہوئی ہے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ’جب غیر مصدقہ ویڈیوز وائرل ہوئیں تو دونوں اداروں نے مشترکہ تحقیقات کا آغاز کیا، دونوں محکموں کے افسران نے حقائق کا جائزہ لیا اور پرامن طریقے سے معاملے کو حل کیا۔
اس بیان میں کہا گیا کہ ’پنجاب پولیس اور پاک فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، ہم سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جعلی پروپیگنڈہ نہ پھیلائیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس واقعہ سے متعلق ایک ایف آئی آر 8 اپریل کو اے ایس آئی نعیم کی شکایت پر مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔
جس میں اے ایس آئی نعیم نے بتایا تھا کہ وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گشت پر تھا کہ دو افراد پولیس پارٹی کو دیکھ کر فرار ہوئے، انہوں نے بعد میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا جس کے قبضے سے پستول بھی برآمد ہوا۔اہلکار نے بتایا کہ زیر حراست شخص بندوق کا لائسنس پیش نہیں کرسکا اور فرار ہونے والے شخص کا نام لیا۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ دوسرے شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے پر ملزم نے مزاحمت کی اور اپنے رشتہ داروں کو بلا لیا جنہوں نے گرفتاری کی مخالفت کی اور ایک کانسٹیبل کو مارتے ہوئے گھسیٹ کر گھر کے اندر لے گئے۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ اس نے کانسٹیبل کو چھڑانے کے لیے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا جس کے بعد اس نے اس وقت کے ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو جائے وقوع پر بلایا۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ پولیس افسران نے ان افراد سے دوبارہ کانسٹیبل کو چھوڑنے کا کہا جس پر وہ تشدد کرنے پر اتر آئے۔اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ تقریباً 20 افراد نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی، فائرنگ کی، مزید ایک کانسٹیبل اور ایس ایچ او رضوان عباس کو یرغمال بنا لیا۔
اے ایس آئی نعیم نے کہا کہ بعد ازاں اس نے مزید پولیس فورس بھیجنے کی درخواست کی اور بالآخر یرغمال تینوں پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیاانہوں نے مزید کہا کہ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور ان سے ان کے پاس موجود سامان بھی چھین لیا گیا.
دوسری طرف زرائع ابلاغ کے زریعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ انسپکٹر سیف اللہ کی شکایت پر 10 اپریل کو بہاولنگر کے مدرسہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ (پی سی سی) کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس ایف آئی آر میں نسپکٹر سیف اللہ نے بتایا کہ انہیں مدرسہ پولیس اسٹیشن کا نیا ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے، انہوں نے 8 اپریل کو درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا جس کے تحت سابق ایس ایچ او رضوان عباس، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد نعیم اور کانسٹیبل محمد اقبال اور علی رضا نے اس میں نامزد تین افراد کو بغیر تفتیش گرفتار کیا تھا اور 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی تینوں کو مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
نئے ایس ایچ او نے کہا کہ قانون سے آگاہ ہونے کے باوجود چاروں اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے رہے، اس طرح کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا اور حاصل اختیارات کا غیر ضروری استعمال کیا۔
ایف آئی آر میں ایس ایچ او نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی حرکتوں کے بارے میں حکام کو الرٹ کیا گیا اور بعد ازاں ان چاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ دونوں مقدمات سے متعلق پنجاب پولیس کسی بھی قسم کی معلومات فراہم نہیں کر رہی۔جبکہ دوسری ایف آئی آر میں پہلی ایف آر کے مدعی پولیس افسران کو ملزم بنایا گیا تھا۔