✧ سپریم کورٹ میں لا کی بجائے مدر ان لا کی حکمرانی ہے۔
اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنما عطاتارڑ نے بدھ کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس منعقد کی۔انہوں نے کہا آج سپریم کورٹ میں انہونی ہوئی۔ایسے مناظر دیکھے گئے جو پہلے نہیں دیکھے گئے۔
انہوں نے کہا ماتحت عدلیہ کو ٹرائل کورٹ کہا جاتا ہے۔جب کوئی ملزم عدالتی فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو درجہ بہ درجہ اپیل کر کے داد رسی حاصل کر سکتا ہے۔مگر یہاں کسی کو قائدہ پہنچانے کے لیے ترتیب کو الٹا دیا جاتا ہے۔
جیسے کہ پانامہ کیس میں ٹرائل کورٹ کی نگرانی کر کے ملزم کو نقصان پہنچانے کے لیے اعلی عدلیہ کردار ادا کرتی رہی۔اب کچھ ملزمان لاڈلے مانے جاتے ہیں اور جانے جاتے ہیں۔ان کے لیے دستور آئین اور قانون کو ان کے فائدے میں استعمال کرنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں ۔
عطا تارڑ نے کہا توشہ خانہ کا مقدمہ واضح چوری کا مقدمہ ہے۔ جس میں سب کچھ ثابت شدہ ہے۔تحائف کی فروخت سے حاصل کردہ رقم کو بھی چھپایا گیا۔انسان ہر غلط اور غیر قانونی عمل کو چھپاتا ہے۔ مسلم امہ کا لیڈر بننے کا دعوے دار تحائف کو بیچ دے اور اور تحائف کا کاروبار کرے تو چھپانا پڑتا ہے۔
اس شخص نے تحائف کو بلیک مارکیٹ میں بیچ کر کروڑوں روپے ہڑپ کر لیے گئے۔تحائف بیچنے کے لیے نہیں ہوتے۔خانہ کعبہ ایڈیشن گھڑی آرڈر پر تیار کروائی کی گئی تھی۔ جس کو بطور یادگار رکھنے کے لیے توشہ خانہ سے نہیں لیا گیا۔ بلکہ بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیئےگئے۔
انہوں نے کہا چیف جسٹس نے تاریخ رقم کر دی ہے۔کسی فوجداری کیس میں ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیس کو سپریم کورٹ میں نہیں سنا جاتا۔چیف جسٹس نے آج ہاِئی کورٹ کے ہاتھ باندھ دیئے ہیں۔کون ماتحت جج چیف جسٹس کے فرمودات کے خلاف فیصلہ دینے کی جرات کرےگا۔
توشہ خانہ کیس میں ایک جج ظفر اقال کو تبدیل کیا گیا۔دوسرے کے خلاف سوشل میڈہا پر الزام تراشی کی گئی۔
آج سپریم کورٹ میں ایسے ہوا کہ میرے جانے کے بعد میرا محبوب سپریم کورٹ میں آئے گا تو میں دیدار سے محروم ہو جاوں گا۔چیف جسٹس کو جلدی ہے ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس کا فیصلہ کر کے جائے۔
چیف جسٹس نے پیغام دیے دیا ہم ملزم کو چھوڑناچاہتےہیں۔
ریٹائرمنٹ سے قبل ملزم کو چھڑوانے کی خواہش ہے۔
انہوں نے کہا چیف جسٹس کے خاندان کی خواتین کی آڈیوز میں ملزم سے تعلق منظر عام پر موجود ہے۔
ملزم کی سزا ختم کرنے کے لیے چیف جسٹس بے تاب ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ میں اپیل تک انتظار کر لیتے۔
ساس شامل نہ ہو تو چیف جسٹس کیس فکس نہیں کرتے۔ کیونکہ ساس نے ملزم کے جلسے میں شریک ہونا ہے۔دوسری طرف صدر پاکستان نے 14 اگست کو مجرموں کی سزا میں 6 ماہ کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔جو کہ توشہ خانہ کے مجرم کو فائدہ دینے کے لیے کیا گیا۔
عطا تارڑ نے کہا جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب شائد شہر سے باہر تھے ورنہ وہ بھی موجود ہوتے۔ایک مرتبہ سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ کر کے ان کو شرم دلائی گئی۔ روز روز شرم دلانے کے باوجود شرم نہیں آتی۔چیف جسٹس ملزم سے عشق کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
انہوں نے کہا ساس کا دل کرتا ہو گا کہ توشہ خانہ کے علاوہ دیگر کیسوں میں بھی رہائی کروا دے۔ ساس کہتی ہو گی رافعہ میں نے عمر کو کہہ دیا ہے کہ توشہ خانہ کے مجرم کو تمام کیسوں میں رہائی دینے کے لیے کوشش کرو اس لیے سپریم کورٹ میں لا کی بجائے مد ان لاکی حکمرانی ہے۔