تحریک لبیک پاکستان پر ایک بار پھر پابندی

اسلام آباد — وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں متفقہ طور پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ایک بار پھر کالعدم تنظیم قرار دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اجلاس میں پنجاب حکومت کی درخواست پر وزارتِ داخلہ نے سمری پیش کی، اور اعلیٰ حکام نے بذریعہ ویڈیو لنک کابینہ کو تحریک لبیک کی ملک میں پُرتشدد سرگرمیوں سے متعلق بریفنگ دی۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق، جماعت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک نے 2021ء میں دی گئی اپنی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی، جب اُس وقت تنظیم پر لگائی گئی پابندی مذاکرات کے بعد اس شرط پر ختم کر دی گئی تھی کہ وہ آئندہ ریاستی رٹ کو چیلنج نہیں کرے گی اور کسی قسم کی پرتشدد کارروائی میں ملوث نہیں ہوگی۔ تاہم حالیہ مظاہروں کے دوران تنظیم کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے، اور متعدد اہلکاروں کے زخمی ہونے کے واقعات کے بعد حکومت نے ایک بار پھر سخت قدم اٹھایا ہے۔

تحریک لبیک پاکستان کی کہانی مذہبی عقیدت، عوامی طاقت، اور ریاستی پالیسی کے درمیان جاری ایک مسلسل کشمکش کی داستان ہے۔ یہ جماعت 2015ء میں لاہور کے مذہبی خطیب علامہ خادم حسین رضوی نے قائم کی تھی۔ خادم رضوی محکمہ اوقاف سے منسلک خطیب تھے، مگر 2011ء میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اُن کے قاتل ممتاز قادری کی بھرپور حمایت نے انہیں عوامی سطح پر ایک نمایاں مذہبی آواز بنا دیا۔ جب 2016ء میں ممتاز قادری کو سزائے موت دی گئی تو خادم رضوی نے “تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ” کے نام سے ایک عوامی تحریک کی بنیاد رکھی، جو بعد میں سیاسی جماعت کی شکل میں “تحریک لبیک پاکستان” کے نام سے سامنے آئی۔

اس جماعت کو پہلی بار ملک گیر شناخت 2017ء کے فیض آباد دھرنے سے ملی۔ انتخابی حلف نامے میں عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق مبینہ تبدیلی کے خلاف تحریک لبیک کے ہزاروں کارکنان راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ تین ہفتے جاری رہنے والے اس احتجاج نے دارالحکومت کی زندگی معطل کر دی۔ بالآخر حکومت نے دباؤ کے تحت وزیرِ قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور کیا، جس کے بعد ٹی ایل پی ایک مضبوط مذہبی سیاسی قوت کے طور پر ابھری۔

2018ء کے عام انتخابات میں تحریک لبیک نے ملک بھر سے امیدوار کھڑے کیے۔ اگرچہ وہ کوئی نمایاں نشست حاصل نہ کر سکی، لیکن بیس لاکھ سے زائد ووٹ لے کر یہ پاکستان کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔

تحریک لبیک نے وقت کے ساتھ ساتھ احتجاجی سیاست کو اپنی پہچان بنا لیا۔ 2021ء میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات پیش آئے، جس پر حکومتِ وقت نے تنظیم کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا۔ تاہم چند ماہ بعد مذاکرات کے نتیجے میں پابندی ہٹا لی گئی اور تنظیم کو معمول کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی۔

خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے سعد رضوی نے قیادت سنبھالی۔ اُن کی سربراہی میں جماعت نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ تیز کیں اور مختلف مذہبی و سیاسی معاملات پر حکومت کے خلاف احتجاجی موقف اختیار کیا۔

اب ایک بار پھر، حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ جماعت نے امنِ عامہ کو نقصان پہنچایا اور ریاستی رٹ کو چیلنج کیا، جبکہ تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ وہ صرف “نبی کریم ﷺ کی حرمت کے دفاع” کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں