یورپ میں افغان تارکین وطن کے خلاف سخت کارروائی — 20 ممالک نے جبری واپسی کا مطالبہ کر دیا

ویانا (آسٹریا) — نمائندہ خصوصی زاہد غنی چوہان:
یورپ کے بیس ممالک نے افغان تارکینِ وطن کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان افغان شہریوں کی جبری وطن واپسی کے لیے فوری اقدامات کرے جو غیر قانونی طور پر یورپی ممالک میں مقیم ہیں — چاہے وہ رضا کارانہ طور پر واپس جائیں یا زبردستی بھیجے جائیں۔

یہ انکشاف بیلجیئم کی وزیر برائے پناہ گزینی و امیگریشن، اینلین وین بوسوٹ نے ہفتے کے روز کیا۔
ان کے مطابق متعدد یورپی ممالک نے اس مسئلے پر مشترکہ موقف اپناتے ہوئے یورپی کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ باضابطہ واپسی کا معاہدہ جلد از جلد طے کرے۔

یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کے ساتھ واپسی کے کسی باقاعدہ معاہدے کی عدم موجودگی سیکیورٹی خطرات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ان ممالک کے مطابق ایسے افغان شہری، جن پر جرائم یا غیر قانونی سرگرمیوں کا الزام ہے، انہیں بھی واپس نہیں بھیجا جا سکتا — جس سے عوام کا پناہ گزین پالیسیوں پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔

یہ مشترکہ اقدام بیلجیئم کی قیادت میں شروع کیا گیا ہے، جسے 18 دیگر یورپی ممالک اور ناروے کی حمایت حاصل ہے۔
ان ممالک میں شامل ہیں:
آسٹریا، بلغاریہ، قبرص، چیک ریپبلک، ایسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، یونان، ہنگری، آئرلینڈ، اٹلی، لیتھوانیا، لکسمبرگ، مالٹا، نیدرلینڈز، پولینڈ، سلوواکیہ، سویڈن اور ناروے۔

ان ممالک نے یورپی کمیشن سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کو ترجیحی بنیادوں پر اپنی پالیسی ایجنڈے میں شامل کیا جائے اور طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک باضابطہ ری ایڈمیشن معاہدہ (Readmission Agreement) کیا جائے تاکہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی کا عمل مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں