یونیورسٹی اساتذہ نے حکومت سے ٹیکس ریبیٹ اور اکیڈیمیا کے دیگر سنگین مسائل پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) نے صدرِ پاکستان، وزیراعظم، وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو، وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو اور سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے تعلیم کے چیئرمین حضرات کو خطوط لکھے ہیں، جن میں ملک میں اعلیٰ تعلیم کی بگڑتی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اساتذہ ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات محمد جدون خان کی طرف سے جمعرات کے روزجاری کردہ اعلامیہ کے مطابق تنظیم نے حکام پر زور دیا ہے کہ اساتذہ کے حقوق کے تحفظ اور جامعاتی نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔اپنے خطوط میں فپواسا نے متعدد حل طلب مسائل کی نشاندہی کی جن میں اساتذہ و محققین کے لیے 25 فیصد انکم ٹیکس ریبیٹ کا خاتمہ، بی پی ایس پروموشن پالیسی کے نفاذ میں تاخیر، اور ٹینور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) اساتذہ کی تنخواہوں میں طویل عرصے سے رکی ہوئی نظرثانی شامل ہیں۔اساتذہ تنظیم نے واضح کیا کہ ان مسائل کو مسلسل نظرانداز کرنا اساتذہ کی حوصلہ شکنی اور سرکاری جامعات کی کارکردگی کو کمزور کر رہا ہے۔
صدر فپواسا پروفیسر مظہر اقبال نے 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ کے خاتمے کو ایک غلط اور نقصان دہ پالیسی قرار دیا۔ یہ ریبیٹ طویل عرصے سے علمی برادری کی قومی ترقی میں خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جا رہا تھا۔ اس سہولت نے نہ صرف اساتذہ اور محققین کی مالی ضروریات کو سہارا دیا بلکہ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں نئے اور باصلاحیت افراد کو متوجہ کرنے اور برقرار رکھنے میں بھی مدد دی۔ اس کے خاتمے سے اساتذہ کی آمدنی میں نمایاں کمی ہوگی، نوجوان محققین تدریس کے شعبے میں آنے سے ہچکچائیں گے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی اساتذہ و محققین کی بیرون ملک ہجرت تیز ہو جائے گی، جو پاکستان کی پہلے ہی کمزور علم پر مبنی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔

سال 2006-07 میں حکومتِ پاکستان نے محققین اور اساتذہ کو راغب کرنے اور ان کو برقرار رکھنے کے لیے 75 فیصد ٹیکس ریبیٹ متعارف کرایا تھا، جسے بعدازاں 2013-14 میں کم کر کے 40 فیصد اور 2018-19 میں مزید کم کر کے 25 فیصد کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس سہولت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق نائب صدر فپواسا پروفیسر اختیارگھمرو نے ایک مثبت تجویز پیش کی کہ حکومت یا تو یہ ریبیٹ بحال کرے یا اس کے بدلے میں اساتذہ و محققین کے لیے کوئی متبادل الاؤنس متعارف کرائے تاکہ ان کی خالص آمدنی متاثر نہ ہو اور ملک کی تعمیر میں ان کے کلیدی کردار کو مناسب طور پر تسلیم کیا جا سکے۔
اعلی حکام کے خطوط میں فپواسا نے پنجاب یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر بھی سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سنڈیکیٹ کی تشکیل میں تبدیلی، منتخب اساتذہ کی نمائندگی میں کمی اور اداروں کی مشترکہ نگرانی کو کمزور کیا گیا ہے۔ جنرل سیکرٹری فپواسا فرید اچکزئی نے ان ترامیم کو جامعات کی خودمختاری اور علمی آزادی پر براہِ راست حملہ قرار دیا اور پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان متنازعہ شقوں کو فوری طور پر واپس لے کر اساتذہ نمائندوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے۔