قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں پنجاب کے بھٹوں میں استحصال اور بدسلوکی کے واقعات کی نشاندھی

اسلام آبادنیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ِمنگل کے روز ”پنجاب کے بھٹوں میں استحصال اور بدسلوکی کے حقائق“کے عنوان سے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی، جس میں منظم استحصال، صنفی بنیاد پر تشدد، قرض کی جکڑ اور بھٹہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کی وسیع پیمانے پر عدم فراہمی کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن، رابعہ جویری آغا نے کہا کہ رپورٹ کے لیے پاکستان پارٹنرشپ انیشی ایٹو (پی پی آئی) کے تعاون سے تحقیق کی گئی۔رپورٹ فیصل آباد اور قصور، پنجاب کے دو اہم بھٹہ مراکزمیں وسیع تحقیق کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، تحقیق میں مزدور تنظیموں، بھٹہ مالکان اور پنجاب لیبر ڈپارٹمنٹ کے حکام کو بھی شامل کیا گیاہے۔

انہوں نے بتایا ”رپورٹ میں پنجاب کے بھٹوں میں تشدد، استحصال اور بدسلوکی کے واقعات کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف ان قوانین کو بے نقاب کرتی ہے جو نظرانداز کیے گئے، بلکہ ان وعدوں کو بھی سامنے لاتی ہے جو پورے نہ ہوئے اور اس عزتِ نفس کو بھی، جسے بار بار پامال کیا گیا۔“
این سی ایچ آر طویل عرصے سے مختلف شعبوں میں غیرانسانی روئیوں کی تبدیلی اور نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے۔ہمارے لیے جبری مشقت کا خاتمہ کوئی خیراتی کام نہیں بلکہ یہ انسانی وقار کو بلند کر نے کی کوشش ہے اور یہ ہمارے آئین میں موجود وعدے کی تکمیل بھی ہے۔“

اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جاوید حسن، نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوآبادیاتی دُور کی جبری مشقت سے لے کر آئینی تحفظات تک کا سفر ایک پیش رفت ضرور ہے، لیکن بھٹوں میں ہونے والے مظالم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ سفر ابھی ادھورا ہے۔”یہ صرف عدلیہ ہی نہیں بلکہ مقننہ اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان مظالم کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ اس رپورٹ کو اجتماعی عمل کی آواز بننا چاہیے تاکہ ایک ایسے پاکستان کی تشکیل ہو جہاں کوئی مزدور زنجیروں میں جکڑا نہ ہو اور ہر فرد کی عزت قائم رہے۔جبری مشقت کے خاتمے کے لیے قانون سازی میں اصلاحات، عدالتی و ادارہ جاتی نظام کی مضبوطی اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

وفاقی سیکریٹری وزارتِ انسانی حقوق عبد الخالق شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”جبری مشقت ہمارے آئین، قوانین اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کے تقاضوں کی صریح خلاف ورزی ہے حکومت نے مزدوروں کے قوانین میں ترامیم، بھٹوں میں جبری مشقت کے خاتمے جیسے منصوبوں، پیشگی رقوم کے ضابطے، معاہدوں میں بہتری اور شناختی دستاویزات کی فراہمی جیسے اہم اقدامات کیے ہیں۔تاہم ان سب کے علاوہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی رپورٹ کے لیے تحقیقات نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ ہمیں دکھاتی ہیں کہ قانون اور اس کے نفاذ، پالیسی اور عملی اقدامات کے درمیان خلا موجود ہیں۔یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ قوانین بنانا صرف پہلا قدم ہے، اصل امتحان ان پر مؤثر عمل درآمد ہے، اور یہی انصاف کا حقیقی پیمانہ ہے۔“

ای او پی پی آئی، اشرف وادھوا مل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس تحقیق نے پاکستان کے بھٹہ مزدوروں کو درپیش انتہائی کٹھن حالات کو بے نقاب کیا ہے۔یہ خاندان نسل در نسل جبری مشقت، ظلم اور بنیادی حقوق سے محرومی کا شکار رہے ہیں۔ہمارا مقصد اس تکلیف دہ سلسلے کو ختم کرنا ہے، اور مثالی نمونہ کے ذریعے ان خاندانوں کو پائیدار روزگار فراہم کر کے بااختیار بنانا ہے۔اس تحقیق میں انتہائی سنگین مظالم کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جن میں زبانی اور جسمانی بدسلوکی سے لے کر اغوا اور حتیٰ کہ قتل کے واقعات بھی شامل ہیں۔ خواتین مزدور خاص طور پر غیر محفوظ ہیں، جو مسلسل جنسی ہراسانی، دباؤ اور جبری شادیوں کا شکار بنتی ہیں۔مزدور غیر محفوظ، غیر صحت مند اور استحصالی حالات میں شدید موسم کے دوران کام کرنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں اکثر قانونی کم از کم اجرت سے بھی کم معاوضہ دیا جاتا ہے اور سماجی تحفظ تک رسائی بھی حاصل نہیں ہوتی۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 97 فیصد مزدور فوری قرضوں کے باعث بھٹوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جبکہ 90 فیصد کے پاس کوئی تحریری معاہدہ موجود نہیں، جس کے باعث وہ مزدور قوانین کے تحفظ سے محروم رہتے ہیں۔جبکہ 70 فیصد سے زائد خاندان ایک ہی تنگ و تاریک کمرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 92 فیصد مزدور زبانی بدسلوکی کا شکار ہیں، جبکہ متعدد مزدوروں نے مارپیٹ، اغوا اور یہاں تک کہ تشدد کی شکایات بھی بیان کیں۔اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ خصوصاً چھوٹے بھٹوں میں کام کی جگہ کے معیارات پر عمل درآمد انتہائی کمزور ہے۔اس کے ساتھ ہی صنفی حساس نگرانی کا فقدان، جبری مشقت سے متعلق قوانین میں ہراسانی سے تحفظ کی کمی، منظم بحالی پروگراموں اور سماجی تحفظ کے نظام کی غیر موجودگی بھی سامنے آئی ہے۔شکایات کے غیر مربوط طریقۂ کار اور ضلعی ویجیلنس کمیٹیوں کی محدود رسائی مزدوروں کے استحصال کو مزید بڑھا دیتی ہے۔تحقیق میں فوری اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ ان سفارشات میں زیر التواء مزدور کنونشنز کی توثیق، کم از کم اجرت کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد، ہراسانی کے خلاف مؤثر تحفظات، مضبوط نگرانی کے نظام اور سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسیع کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔جبکہ بازیاب مزدوروں کے لیے منظم بحالی اور معاونت فراہم کی جائے، خواتین لیبر انسپکٹرز تعینات کی جائیں، بحالی فنڈ قائم کیا جائے اور ای بلیک (EBLIK) جیسے کامیاب اصلاحی ماڈلز کو وسیع پیمانے پر اپنایا جائے۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں