افغانستان میں لڑکیوں کے لیے دینی مدارس کا بڑھتا ہوا رجحان.ہمیں وہ نہیں پڑھایا جاتا جو ہمیں سیکھنا چاہیے

کابل، افغانستان —”میں چاہتی تھی…” لڑکی ایک لمحے کو رکتی ہے، پھر بولتی ہے: “میں مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ لیکن جب طالبان افغانستان آئے، تو اسکولوں کے تمام دروازے بند ہو گئے۔”

یہ الفاظ کابل کے مضافات میں قائم طالبان سے منظور شدہ لڑکیوں کے لیے مخصوص ایک دینی مدرسہ “نجی بشریٰ” میں پردہ کیے بیٹھی ایک نوجوان طالبہ کے ہیں۔ اس کی ہم جماعت لڑکی، جو میز کے نیچے سے اس کا بازو پکڑ لیتی ہے، جانتی ہے کہ طالبان حکومت پر تنقید کسی بھی صورت میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

سی این این کے مطابق، اگرچہ یہ دینی مدارس مکمل اور معیاری تعلیمی ادارے نہیں، لیکن افغانستان میں 12 سال سے زائد عمر کی بیشتر لڑکیوں کے لیے یہی واحد تعلیمی آپشن رہ گیا ہے۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں اور خواتین پر ثانوی اور اعلیٰ سطح کی عمومی تعلیم حاصل کرنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔

یہ پابندی اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے حقوق کے خلاف وسیع تر اقدامات کا حصہ ہے۔ موجودہ حکومت نہ صرف خواتین کے لباس، نقل و حرکت، اور میل جول پر سخت کنٹرول رکھتی ہے، بلکہ ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ سفر کے دوران کسی مرد محرم کے ساتھ ہوں۔

رواں سال جولائی میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے طالبان کے دو اعلیٰ رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی کوشش کی، جس کی بنیاد خواتین اور لڑکیوں پر مظالم کو “انسانیت کے خلاف جرائم” قرار دیا گیا۔ طالبان نے عدالت کے اقدام کو “اسلام کے خلاف دشمنی اور نفرت” سے تعبیر کیا۔

ابتدائی طور پر طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عارضی ہے، اور کچھ رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ سیکیورٹی مسائل حل ہونے کے بعد عمومی اسکول دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔ تاہم چار سال گزرنے کے بعد، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کے سخت گیر عناصر غالب آ چکے ہیں۔ غیر مذہبی اسکول، جامعات اور حتیٰ کہ صحت کی تربیت کے مراکز بھی ملک کی نصف آبادی کے لیے بند ہیں۔

اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے یونیسکو کی مارچ میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق، سنہ 2021 کے بعد سے تقریباً 15 لاکھ افغان لڑکیوں کو ثانوی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے۔

طالبات کے لیے دینی مدارس، جہاں تعلیم قرآن، حدیث، فقہ اور عربی زبان تک محدود ہوتی ہے، اُن خوابوں کا نعم البدل نہیں جو یہ لڑکیاں کبھی دیکھا کرتی تھیں — ڈاکٹر بننے، انجینئر یا استاد بننے کے خواب، جو اب شاید صرف یادوں کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں