ویب ڈیسک: دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، جنہیں کم عمری میں طالبان کے حملے کا سامنا کرنا پڑا، اب خواتین کے کھیلوں میں برابری کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں۔ تعلیم کی علمبردار کے طور پر معروف ملالہ دراصل کھیلوں کی دلدادہ بھی ہیں — کرکٹ، فٹبال، باسکٹ بال، نیٹ بال، حتیٰ کہ اولمپک اور کامن ویلتھ گیمز میں بھی انہیں شائقین کی نشستوں پر اکثر دیکھا گیا ہے۔
سی این این کے مطابق ، حال ہی میں انہوں نے ایک نئی پہل “ریسیس (Recess)” کے نام سے شروع کی ہے، جس کا مقصد کھیل کے ذریعے دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینا ہے۔ یہ خیال ان کے بچپن سے وابستہ ہے، جب اسکول میں لڑکے کھیل کے میدان میں جاتے اور لڑکیاں پیچھے رہ جاتیں۔ ملالہ کے بقول، “اسی وقت سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کھیل لڑکیوں کے لیے آسان رسائی میں نہیں۔”
ملالہ کا ماننا ہے کہ دنیا میں بڑھتے تنازعات اور کشیدہ حالات میں کھیل ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جو انسانوں کو قریب لاتا ہے، پرامن بقائے باہمی کا پیغام دیتا ہے۔ “ہم مکالمے کے قابل ہیں، ہم ایک ہو سکتے ہیں — کھیل نے یہ بارہا ثابت کیا ہے۔”
ریسیس کا مقصد نہ صرف عالمی سطح پر خواتین کے پیشہ ورانہ کھیلوں میں سرمایہ کاری کرنا ہے بلکہ دنیا بھر میں نوجوان لڑکیوں کو کھیلوں میں شامل ہونے کے مواقع بھی دینا ہے۔ ان کے شوہر، عصر ملک، جو پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک رہ چکے ہیں، اس اقدام میں ملالہ کے ساتھ شریک ہیں۔
اس پہل میں عالمی سطح پر مشہور شخصیات جیسے بلی جین کنگ اور ان کی شریک حیات ایلانہ کلاوس بطور مشیر شامل ہیں، جو خواتین کے کھیلوں کو کاروباری مواقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔
ملالہ اور عصر نے امریکہ کی معروف خواتین لیگز — WNBA اور NWSL — میں سرمایہ کاری کے ارادے ظاہر کیے ہیں تاکہ ان کے ترقیاتی امکانات کو جانچا جا سکے اور لڑکیوں کے کھیلوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
ریسیس کی حکمت عملی کثیر جہتی ہے: ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں کھیلوں کی ترقی، خواتین کو پیشہ ورانہ کھیلوں تک رسائی، اور نوجوان لڑکیوں کو کھیل کی طرف راغب کرنا۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 14 سال کی عمر تک لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا شرح سے کھیل چھوڑ دیتی ہیں، جس کی وجوہات میں محدود مواقع، سماجی دباؤ اور رول ماڈلز کی کمی شامل ہیں۔
ملالہ کا کہنا ہے، “ہمیں ہر علاقے کے مطابق مختلف حکمتِ عملی اپنانا ہوگی تاکہ خواتین کے کھیلوں کو واقعی فروغ دیا جا سکے۔”
کرکٹ کی شوقین ملالہ خود گالف بھی کھیلتی ہیں اور اپنی بہترین شاٹس شوہر عصر کو نہایت شوق سے بیان کرتی ہیں۔ وہ مانتی ہیں کہ کیٹلن کلارک جیسے کھلاڑیوں کی میدان میں موجودگی ہی لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے کافی ہے۔
ملالہ کہتی ہیں، “یہ خواتین کسی تقریر کے بغیر بھی ایک مضبوط پیغام دے رہی ہیں — کہ خواتین کچھ بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ کھیلوں میں ان کی موجودگی خود ایک انقلابی عمل ہے۔”