جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کی رہائی، مارشل لا کے اعلان پر مواخذے کے بعد بھی معطلی برقرار

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول، جنہیں قانون سازوں نے مارشل لا کے اعلان پر مواخذے کے بعد معطل کر دیا تھا، کو حراست سے رہا کر دیا گیا۔ استغاثہ نے ان کی گرفتاری منسوخ کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یون بدستور اپنی ذمہ داریوں سے معطل ہیں اور ان کے خلاف فوجداری اور مواخذے کے مقدمات جاری ہیں۔

ہفتے کے روز انہیں حراستی مرکز سے باہر آتے دیکھا گیا، جہاں ان کے حامیوں نے کورین اور امریکی جھنڈے لہرا کر ان کا استقبال کیا۔ یون نے جھک کر اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور بیان میں کہا، “میں ان تمام شہریوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے سخت سردی کے باوجود میرا ساتھ دیا، اور میں ہماری آئندہ نسلوں کے لیے بھی اپنی گہری قدردانی کا اظہار کرتا ہوں۔”

ان کی رہائی کا فیصلہ سیول سینٹرل ڈسٹرکٹ کورٹ نے جمعہ کو قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر کیا۔ سیول ڈیٹینشن سینٹر نے تصدیق کی کہ انہیں استغاثہ کے دفتر کی جانب سے یون کی رہائی کا حکم نامہ موصول ہوا تھا۔

یون کو جنوری میں ایک بغاوت کی قیادت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جو ان چند جرائم میں شامل ہے جن سے صدر کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔

انہوں نے 3 دسمبر کو مارشل لا نافذ کر کے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور فوج کو دارالحکومت میں تعینات کر دیا تھا، لیکن چھ گھنٹوں کے اندر پارلیمنٹ کے سخت ردعمل کے بعد اس فیصلے کو واپس لینا پڑا۔

قانون سازوں نے ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا، اور اب آئینی عدالت فیصلہ کرے گی کہ آیا انہیں مستقل طور پر عہدے سے ہٹایا جائے گا یا بحال کیا جائے گا۔

ان کے مواخذے کی کارروائی ان کے خلاف فوجداری مقدمات سے علیحدہ ہے۔

یون کی رہائی کے بعد وہ مواخذے کے فیصلے کا، جو آنے والے ہفتوں میں متوقع ہے، اپنی رہائش گاہ پر انتظار کر سکیں گے۔

جنوبی کوریا کی مرکزی اپوزیشن پارٹی کے رہنما لی جے میونگ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ یون کو اس الزام سے بری نہیں کرتا کہ انہوں نے “ایک غیر آئینی فوجی بغاوت کے ذریعے آئینی نظام کو تباہ کیا۔”

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں