جرمنی میں سالانہ کارنیوال کی تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے، جہاں ہر عمر کے شہری مختلف رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کیے اور منفرد روپ دھارے، کارنیوال کے جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ تقریبات 27 فروری سے شروع ہو چکی ہیں اور مغربی صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ان کا جوش و خروش عروج پر ہے۔
اس صوبے کے بڑے شہروں، خاص طور پر کولون اور دارالحکومت ڈوزلڈورف میں کارنیوال کے شائقین کی بڑی تعداد جمع ہو چکی ہے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
قدیم روایت
کارنیوال کی ایک خاص روایت “وائبر فاسٹ ناخت” یا “اولڈ میڈز ڈے” کے نام سے مشہور ہے، جو خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس دن خواتین مردوں کی طاقت کی علامت سمجھی جانے والی نکٹائی کو کاٹ کر ایک روایتی عمل انجام دیتی ہیں، جو خواتین کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔
روز منڈے: کارنیوال کا عروج
کارنیوال کے اختتام سے قبل ہر قصبے اور محلے میں جلوس نکالا جاتا ہے، جس کا نقطہ عروج “روز منڈے” یا “گلابی پیر” ہوتا ہے۔ اس دن بڑی تعداد میں پریڈز کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں میوزک بینڈز اور رنگا رنگ لباسوں میں ملبوس افراد شرکت کرتے ہیں۔ ٹرکوں پر سوار افراد ہجوم پر چاکلیٹ، ٹافیاں اور دیگر تحائف نچھاور کرتے ہیں، جسے لوگ خوشی سے جمع کرتے ہیں۔
سیاسی طنز و مزاح
کارنیوال کی ایک خاص بات “پولیٹکل سٹائر” یعنی سیاسی طنز و مزاح پر مبنی خاکے ہوتے ہیں۔ مسخرے سیاستدانوں، حکمرانوں، مذہبی شخصیات، معروف موسیقاروں اور اداکاروں کا روپ دھار کر مزاحیہ انداز میں ان کی نقلیں اتارتے ہیں، جو حاضرین کے لیے خاصی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ کولون میں نکالے جانے والے بڑے جلوس میں اس طرح کے خاکے خاص طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
سکیورٹی انتظامات اور خدشات
اس سال کارنیوال کی تقریبات کے دوران سوشل میڈیا پر ممکنہ خطرات کی خبریں گردش کر رہی تھیں، جسے وفاقی جرمن دفتر برائے انسداد جرائم (BKA) نے “پراپیگنڈا پبلیکیشن” قرار دیا ہے۔ تاہم، پولیس نے سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے ہیں اور کولون میں حالات کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ حساس قرار دیا گیا ہے۔
اس ضمن میں 1500 پولیس افسران، پبلک آرڈر آفس کے 300 اضافی ورکرز اور 1200 پرائیویٹ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، ہجوم پر گاڑی چڑھانے جیسے حملوں سے بچنے کے لیے “ڈرائیو اوور” رکاوٹیں لگائی گئی ہیں، جبکہ پولیس اہلکار جلوس میں شامل افراد کی تلاشی بھی لے رہے ہیں۔
یہ تہوار جرمنی کی ثقافتی روایات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، اور ہر سال لاکھوں افراد اس میں بھرپور جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔