بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ تھائی لینڈ میں قید درجنوں ایغور افراد کو خفیہ طور پر چین واپس بھیجا جا چکا ہے، جہاں انہیں قید و تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ 48 ایغور مرد 11 سال قبل چین سے فرار ہو کر تھائی لینڈ پہنچے تھے، جہاں انہیں گرفتار کر کے حراست میں رکھا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، جمعرات کے روز تھائی اپوزیشن کے رکن کناوی سبسانگ نے دعویٰ کیا کہ یہ افراد ممکنہ طور پر چین واپس بھیج دیے گئے ہیں۔
سی این این کے مطابق، سبسانگ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کچھ تصاویر شیئر کیں، جن میں چھ وینز کو بنکاک کے امیگریشن سینٹر سے روانہ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے، جہاں خیال کیا جاتا تھا کہ ایغور قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔
ایغور حقوق کے کارکن ارسلان ہدایت نے بتایا کہ وہ ان قیدیوں میں سے ایک سے مسلسل رابطے میں تھے، لیکن پیر کے بعد سے ان کا کوئی پیغام موصول نہیں ہوا، جس سے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
امریکہ اور دیگر ممالک چین میں ایغور اقلیت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو “نسل کشی” قرار دے چکے ہیں، جہاں اطلاعات کے مطابق ایغور باشندوں کو قید، جبری مشقت اور سخت نگرانی کا سامنا ہے۔ تاہم، چین ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا ہے۔
چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق، جمعرات کو 40 چینی شہریوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے جرم میں تھائی لینڈ سے ملک بدر کر کے چین واپس بھیجا گیا، تاہم ان کی قومیت یا دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
تھائی لینڈ نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر کوئی تصدیق نہیں کی۔ وزیر اعظم پیتونگتارن شیناواترا نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام اقدامات قانونی اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔
تھائی لینڈ پناہ گزینوں کے 1951 کے عالمی معاہدے کا فریق نہیں ہے اور پناہ کی درخواست کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس سے قبل بھی تھائی حکومت نے 2015 میں 100 ایغور باشندوں کو چین واپس بھیجا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی تھی، اور ان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس اقدام کو “بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی” قرار دیا اور کہا کہ چین واپس جانے والے ایغور باشندوں کو تشدد، جبری گمشدگی اور طویل قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔
امریکی حکام نے بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو چین میں قید، تشدد یا حتیٰ کہ موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایغور قیدیوں نے اپنی ملک بدری کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ انہیں کسی تیسرے ملک میں منتقل کر کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔